غالب کے ایک شعر سے مستعار یہ عنوان ڈاکٹر طاہر مسعود کی خاکوں پر مبنی کتاب کا ہے۔شعر ہے۔ کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے ہے ہر اک فردجہاں میں ورق ناخواندہ غالب کے اس شعر میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے بالخصوص انسان کی شخصی مطالعہ اور مطالعہ نگاری کے لئے ایک مکمل نصاب اور اس کی تحریک موجود ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ معروف شخصیات کے بارے میں ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ ء حیات سے ہو ، اس طرح جاننا اور لکھنا کہ ان کے ظاہر اور باطن کا فرق کم سے کم رہ جائے ایک کار کٹھن ہے۔ پھر یہ کہ ذاتی رابطوں اور پہلے سے موجود تعلقات کے باعث یہ کام اور بھی آزمائش بن جاتا ہے کہ بعض شخصی پہلوئوں کا اگر کسی قدر سچائی سے ذکر شامل ہو جائے تو جن کے بارے میں لکھا جارہا ہوتا ہے ان سے تعلقات کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی کسی نہ کسی طور موجود ہوتا ہے کہ : ٹھیس نہ لگ جائے کہیں آبگینوں کو خاکہ نگاری کے اس مشکل ہنر کے بارے میں خود ڈاکٹر طاہر مسعود اس کتاب کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں: ’’ تو جن لوگوں کی بابت میں نے لکھا ہے، چھوٹا منہ بڑی بات مگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ انھیں میں نے اپنا باطنی تجربہ بنا کر انھیں شدت و حدت سے محسوس کرکے ہی صفائی اور صاف گوئی سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔کوئی بات ناگوار محسوس ہو تو یہ سوچ کر معاف کر دیجئے گا کہ سچ کڑوا ہوتا ہے ،جیسے نیم کے پتے، کونین کی گولی اور صحت بخش انجکشن کڑوے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں مگر مقصد ان کا نیک اور مثبت ہوتا ہے ۔ ‘‘ ڈاکٹر طاہر مسعود کی شخصی جہات بھی بڑی متنوع ہیں ۔وہ ایک صحافی بھی ہیں اور صحافیوں کے استاد بھی،ادیب ہیں اور ادب شناس بھی، کہانی کار ہیں ، انٹرویو نگار ہیں،خاکہ نگار ہیں،ان کا شخصی تاثر جیسے کسی گہری سوچ میں مستغرق کوئی فلسفی ، وہ کبھی صوفی نظر آتے ہیں اور کبھی مکمل شریعتی ۔ایک استاد کی حیثیت سے ان کی علمی اور تدریسی اہلیت کے بارے میں توان کے ہزاروں شاگرد بہتر جانتے ہیں البتہ ایک صحافی کے طور پر ان کے انٹرویو لئے جانے کی اہلیت کا ایک زمانہ معترف رہا ہے۔اور اب ایک خاکہ نگار ہونے کی ان کی ادبی حیثیت ایک کہانی کار یا افسانہ نگار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔( ڈاکٹر طاہر مسعود کی شخصیت میں موجود کہانی کار کہیں ناراض نہ ہو جائے ۔) ان کے انٹرویو لینے کی بدرجہ کمال اہلیت نے ان کی خاکہ نگاری کو بھی ایک نئی جہت سے روشناس کیا ہے۔خاکہ نگاری ایک مشکل صنف ہے۔اس ضمن میں خاکہ نگار سے اس کا شخصی تعلق ،اس کی شہرت ، اس کی حیثیت اور سماج میں موجود اس کا شخصی تاثر خاکہ نگاری میں بار بار اثر انداز ہوتا ہے۔یہ ہی وہ مرحلہ ہے جہاں خاکہ نگار کی اہلیت کی آزمائش ہوتی ہے ۔ پرت در پرت شخصیت کو کھوجتے ہوئے خوبیوں اور خامیوں کو اس طرح سامنے لانا کہ جس کا خاکہ لکھا گیا ہو وہ خود بھی حیران ہو کر کہہ اٹھے کیا واقعی ؟ تینتیس ( 33 ) شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ڈاکٹر طاہر مسعود کی خاکوں پر مبنی یہ کتاب ’’ اوراق ناخواندہ ‘‘ اسی تاثر کی نمائندہ ہے۔ جن شخصیات کے خاکے اس کتاب میں شامل ہیں وہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے بیشتر علمی، ادبی ،سیاسی ،صحافتی اور سماجی حلقوں میں انتہائی معروف ہیں ۔ان جانی پہچانی شخصیات میں ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر اسلم فرخی ، ڈاکٹر معین الدین عقیل،پروفیسر شریف المجاہد ، ڈاکٹر شکیل اوج، سلیم احمد، افتخار عارف ،پروین شاکر، انتظار حسین، مشتاق احمد یوسفی، الطاف حسن قریشی، مجید نظامی، ابن الحسن ،فرہاد زیدی ،پروفیسر غفور احمد، معراج محمد خان، فوزیہ وہاب، حسین حقانی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ خاندان سے متعلق کچھ شخصیات کے خاکے بھی اس میں شامل ہیں جن پر لکھنا نہ صرف انتہائی مشکل رہا ہوگا بلکہ جذباتی تعلق کے باعث ان کے کمزور پہلوئوںکے اظہار میںاحتیاط کا تقاضہ بھی سوا رہا ہوگا ۔ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب خود اس مشکل کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ کبھی فیصلہ نہیں کر سکا کہ سچ کتنا بولنا چاہیئے ؟ جو کچھ آپ جانتے ہوں ، اس میں سے کتنا بتانا اور کتنا چھپا لینا چاہیئے ۔ شاید دنیا میں مطلق اور مکمل سچائی نام کی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں اور اگر ہوتی بھی ہے اور اگر کوئی اس کے اظہار کی ہمت کر بھی لے تو یہ سچ سب سے پہلے خود بولنے والے کو لہو لہان کر دیتا ہے۔ ‘‘ مگر اہم بات یہ ہے کہ ان ہی شخصیات کے خاکوں میں ڈاکٹر صاحب اپنے اسلوب اور طرز بیان میں سب سے زیادہ توانا محسوس ہوئے ۔ بلاشبہ ان کی یہ توانائی سچ کے اظہار سے ان کی گہری وابستگی کی روشن علامت ہے۔کتاب میں شامل ان کے خاکے ’’ میرے ابی جان ‘‘ ، ’’ دکھیاری پھوپھی ‘‘ ، اور ’’ دوسروں کے لئے جینے والے ‘‘ اس طرز نگاری میں شاہکار حیثیت کے حامل ہیں۔اس کے علاوہ سلیم احمد ،الطاف حسن قریشی، ابن الحسن اور فرہاد زیدی کے خاکے بھی کمال مہارت اور عمدہ اسلوب نگارش کے نمائندہ حیثیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی یہ کتاب خاکہ نگاری کے دبستان میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔جس کا مطالعہ ہر صاحب ذوق اور شائق ادب کے لئے طمانیت ذوق کا باعث ہو گا۔ اوراق نا خواندہ کی اشاعت ، انتہائی عمدگی سے ، ہما پبلشنگ ہائوس ، کراچی سے ہوئی ہے ۔ کتاب کے حصول کے لئے یہ رابطہ نمبر 0300-2539605 دیا گیا ہے۔