آپ کی نظر سے یہ واقعہ ضرور گزرا ہوگا کہ لاہور کے علاقے ڈیفنس فیز 7میں 6افراد کو ایک کم سن ڈرائیور نے جان بوجھ کر اپنی گاڑی کے ذریعے ہٹ کرکے مار دیا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ملزم افنان جس کی عمر 14سے 15سال بتائی جاتی ہے، نے وائی بلاک ڈیفنس سے گاڑی میں بیٹھی خواتین کا کافی دیر تک پیچھا کیا۔ اس دوران متاثرہ گاڑی کے ڈرائیور حسنین نے کئی بار گاڑی کی رفتار بھی تیز کی کہ شاید اس طرح افنان ان کا پیچھا کرنا چھوڑ دے تاہم ملزم نے گاڑی کا پیچھا نہیں چھوڑا اور مسلسل خواتین کو ہراساں کرتا رہا۔اور پھر ملزم افنان نے 160 کی اسپیڈ سے گاڑی گھما کر خواتین والی گاڑی سے ٹکرا دی۔ذرائع کے مطابق حادثے کے بعد حسنین کی گاڑی 70 فٹ روڈ سے دور جا گری اور کار سوار تمام افراد جاں بحق ہوگئے، بعد ازاں 4 افراد ملزم کو چھڑانے پہنچے لیکن لوگوں کا غصہ دیکھ کر بھاگ گئے۔اس خوفناک حادثے کے بعد یقینا نگران وزیر اعلیٰ نے سخت احکامات جاری کیے ہیں، جس کے بعد اوور سپیڈ ، کم سن ڈرائیورز اور بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والوں کے خلاف 4ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں،جسے دیکھ ، سُن کر اچھا لگا مگر کوئی بتائے گا کہ کیا یہ مستقل حل ہے؟ کیا اس قسم کے حادثات میں ریاست قصوروار نہیں؟ جو سخت ایکشن لینے کے بجائے ان قاتلوں کے ہاتھ لمبے کرتی ہے۔ اس قسم کے حادثات کے بعد ہم، آپ یا کوئی بھی تھوڑی بہت اشک شوئی کے بعد خاموشی اختیار کرکے کسی نئے حادثے کا انتظار کرنے لگتا ہے، مگر کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اُس بے سروساماں خاندان پر کیا گزرتی ہوگی جسے آپ، ہم اور ادارے بھول جاتے ہیں۔ یہاں تو لائسنس بھی گھر بیٹھے مل جاتے ہیں، گاڑیوں کی فٹنس کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں قانون کا خوف ہی انسان کو اچھا شہری بناتا ہے، کیا امریکا میں اس حوالے کوئی سوچ سکتا ہے کہ بچہ گاڑی لے جائے، یا بغیر لائسنس کے کوئی گاڑی چلا سکے؟ میرے دوست امریکا میں مجھے کبھی گاڑی چلانے کے لیے نہیں دیتیبلکہ وہ خود ’’ڈرائیور‘‘ بن کر میرے ساتھ جاتے ہیں، اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے قوانین بہت سخت ہیں، وہاں اگر پانچ دوست ایک بار میں گئے ہیں تو 4اگر شراب پی رہے ہوتے ہیں تو پانچواں شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا کہ اُس نے گاڑی چلانی ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرتا پکڑا گیا تو جیل اور لائسنس کی منسوخی ہے۔ الغرض وہاں ڈرائیونگ میں غفلت، بغیر لائسنس گاڑی چلانا یا شراب پی کر گاڑی چلانے کی سزا اقدام قتل کی سزا کے برابر ہے۔امریکا میں ہر قسم کی آپ کو چھوٹ مل سکتی ہے مگر نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کو عمر قید کے لیے بھیج دیا جائے ۔ اس کے علاوہ وہاں معمولی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھی سینکڑوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور بغیر لائسنس کے تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آپ گاڑی چلا سکیں گے! بعض اوقات غلطی پر غلطی کرنیوالے کا لا ئسنس بھی کینسل ہو جاتا ہے تین سال پرانی گاڑیوں کو ہر سال فٹنس ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اگر گاڑی ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو وہ روڈ پر نہیں آسکتی ۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں اگر آپ کے پاس لائسنس نہیں ہے، تو آپ کی گاڑی کو بند بھی نہیں کیا جائے گا۔ محض 500 سو روپے جرمانہ کر دیا جائے گا۔یعنی آپ نے محض 500روپے میں اسے گھر جانے دیا تاکہ وہ راستے میں درجنوں معصوم جانوں کی زندگی سے کھلواڑ کر سکے۔ آپ امریکا کو چھوڑیں دوسرے ممالک کی مثالیں لے لیں، جیسے دبئی کی مثال لے لیں وہاں بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والے پر باقاعدہ مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ شخص شہر میں ’’بم‘‘ لیے پھر رہا تھا۔پھر آپ ملائشیا کی مثال لے لیں وہاں صرف وہی شخص ڈرائیونگ کر سکتا ہے جس کے نام پر گاڑی ہو، مگر ہمارے ہاں چار دن ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے والا پانچویں دن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے اور ہو سکے تو وہ اگلے ہی دن گاڑی موٹروے پر ڈال کر مری لے جائے ۔کیوں کہ اُسے علم ہے کہ جرمانے بہت کم ہیں۔لہٰذاکچھ لے دے کر جان چھوٹ جائے گی۔ اس لیے اوور سپیڈنگ بھی وہی لوگ کرتے ہیں جن کی گاڑیاں 16سو سی سی سے اوپر ہوتی ہیں۔اُن کے لیے 700روپے جرمانہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بہرحال جہاں قانون کاخوف ہوتا ہے، وہیں مہذب قومیں بھی جنم لیتی ہیں۔ یہاں بھی پہلے سے بنے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ملزمان کو دو سو فیصد یقین ہو کہ وہ چھوٹ جائیں گے۔ آپ اسی کیس میں دیکھ لیں کہ ابھی تو تادم تحریر ملزم افنان کی ضمانت اُن کے وکلاء نے واپس لے لی ہے، کیوں کہ بقول وکلاء کے کہ نگران وزیر اعلیٰ کے احکامات کے بعد مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ لیکن آپ دیکھیے گا کہ تگڑے وکلاء کے تگڑے دلائل کے بعد ہمارا قانون سرنڈر کر جائے گا، ڈرایا دھمکایا جائے گا اور ایک آدھ شخص ترلے منتیں والا بھی شامل کر لیا جائے گا جو لواحقین کو کہے گا کہ چلیں چھوڑیں بچہ تھا، غلطی ہوگئی۔ اُس کا مستقبل خراب ہو جائے گا، وہ ساری زندگی سنبھل نہیں پائے گا۔ پھر کہا جائے گا، کہ قسمت میں یہی لکھا تھا،اُن کی زندگی اتنی تھی، اُن کی اسی طرح ہی لکھی ہوئی تھی، بس بہانہ بنا ہے، وغیرہ وغیرہ پھر دیت کا قانون بھی آڑے آجائے گا۔ اور پھر لواحقین اسلام کی خاطر سب کچھ معاف کردے گا۔ چلیں مان لیا کہ بچہ کم عمر ہے، معصوم ہے، اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، اس حوالے سے تو میرے خیال میں ماں باپ سزا کے زیادہ مستحق ہیں،جنہوں نے اس جیسے بچوں کی غلط تربیت کرکے اُنہیں گاڑیاں بھی تھما دیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر عام شہریوں کو ماررہے ہیں، چلیں یہ بھی مان لیں کہ ماں باپ نے اُنہیں ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دی،لیکن ان بچوں نے اپنے بڑوں کو تو ایسا کرتے یا اس قسم کے قوانین توڑتے تو دیکھا ہوگا۔ تبھی وہ اس قسم کی حرکات کرتے ہیں۔ یقین مانیں میرے ایک دوست بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ اُن کے بڑے بیٹے نے اپنے چھوٹے بھائی کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی یا کوئی سگنل توڑا یا اگر کوئی گڑبڑ کی تو پاپا ہمیں خود پولیس اسٹیشن چھوڑ آئیں گے۔ اگر ہمارے ہاں یہ ’’سکول آف تھاٹ‘‘ ہوگا تو کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جائے کہ کچھ بھی برا کرو،تو ’’پاپا سنبھال لیں گے‘‘ تو ایسے بچے کبھی معاشرے میں نارمل زندگی نہیں گزار سکتے۔ لہٰذاایسے بچوں سے زیادہ اُن کے والدین سزا کے مستحق ہوتے ہیں،، لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ٹریفک قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے ، گورنمنٹ کی رٹ کو مضبوط کیا جانا چاہیے ۔ ورنہ ریاست میں اس قسم کے حادثات معمول بن جائے گا!