آج اردو ادب کے دو بڑے تخلیق کاروں کو یاد کرتے ہیں جو جولائی کے مہینے میں ہم سے بچھڑے۔دونوں کی وفات کے دن آگے پیچھے ہیں۔10 جولائی احمد ندیم قاسمی کا یوم وفات ہے اور 11 جولائی قتیل شفائی کا یوم وفات ہے۔قتیل شفائی اور احمد ندیم قاسمی کی زندگی میں کچھ اور بھی عجیب طرح کی مماثلتیں موجود ہیں۔احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916 کو پیدا ہوئے اور اناسی سال کی عمر میں 10 جولائی 2006 کو وفات پائی جبکہ قتیل شفائی 24 دسمبر 1919 میں پیدا ہوئے اور 11 جولائی 2021 کو 81 برس کی عمر میں وفات پائی۔احمد ندیم قاسمی کا گھر سمن آباد کی جس گلی میں ہے اس کا نام قتیل شفائی سٹریٹ ہے یعنی قتل شفائی بھی تمام عمر قاسمی صاحب کے ہمسائے ہی میں رہائش پذیر رہے۔قاسمی صاحب کا ایک شعر ان کی پہچان بن گیا۔ کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا قتیل شفائے کی بیاض کھنگالیں تو اسی موضوع کو بالکل مختلف انداز میں بیان کرتا ہوا ایک شعر ملتا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے قتیل شفائی صاحب نے قاسمی صاحب کے مذکورہ بالا شعر کے جواب میں یہ کہا ہے گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا خیر یہ تو ایک قاری کی حیثیت سے دونوں بڑے شاعروں کی زندگی کے حوالے سے دلچسپ سا موازنہ تھا۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں بڑی شخصیات ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں انہوں نے بہت کام کیا ۔قاسمی صاحب نے تو دو نسلوں کی شعر و سخن کے میدان میں رہنمائی کی۔فنون کے ذریعے دور دراز بسنے والے سچے اور خالص ادیبوں کے فن پاروں کو شائع کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی۔کئی نامور ادیب کہتے ہیں کہ قاسمی صاحب کے زیر ادارت فنون میں ان کی تحریروں کا چھپنا ان کے لیے ایک اعزاز تھا اور یہی بہت سے تخلیق کاروں کے لیے پہچان اور نام بنانے کا بہترین پلیٹ فارم بھی ثابت ہوا۔آنٹی افضل توصیف بھی کوئٹہ سے لاہور آکر اپنی ادبی زندگی کے اغاز کے دنوں کو یاد کرتی تو قاسمی صاحب اور فنون تذکرہ ضرور ہوتا۔کہا کرتی انہوں نے ڈرتے ڈرتے کچھ افسانے فنون میں بھیجے ۔افسانے فنون میں چھپ گئے۔ ایک روز قاسمی صاحب سے ملنے گیئں تو وہ حیران ہوئے کہ یہ تو خاتون افسانہ نگار ہے کیونکہ نام سے وہ انہیں کوئی مرد ادیب ہی سمجھے تھے ۔ ادبی سفر کے حوالے سے بیشتر ادیبوں اور شاعروں کی فنون سے قیمتی یادیں سے جڑی ہوئی ہیں اور فنون کیا تھا قاسمی صاحب کی ادبی کشادہ دلی اور اعلی ظرفی کا ایک اظہار۔یہ دراصل ان کی شخصیت تھی فنون کے صفحات میں چھلکتی اور چمکتی تھی۔قاسمی صاحب نے صحافت بھی کی اخبار کے مدیر بھی رہے۔آخر عمر تک رواں دواں کے نام سے کالم لکھتے رہے ۔وہ مجلس ترقی ادب کے چیئرمین تھے جب ایک روز میں سے پہلی بار ملی۔جون جولائی ہی کا کوئی گرم دن تھا میں اپنے دفتر سے نکلی۔ اس روز اراد ہ تھا کہ آ ج تو قاسمی صاحب سے ملنے ضرور جاؤں گی، فون پر ان سے ایک دو بار بات ہو چکی تھی، فون ہی پر وقت طے کر لیا تھا۔قاسمی صاحب سے پہلی ملاقات مجلس ترقی ادب کے خستہ حال سے دفتر میں ہوئی تھی۔ مال روڈ کے پہلو میں جی او آر ون کے شاندار علاقے کے قریب ایک کچی گلی مجلس کے دفتر کی طرف چلی جاتی تھی اور اس دفتر کے پرانے فرنیچر بوسیدہ پردوں کے درمیان رکھی ہوئی میز کرسی پر بیٹھی شخصیت کی تمکنت کسی بھی طرح دفتر کے ماحول سے میل نہیں کھاتی تھی۔ میری ڈائری پر قاسمی صاحب نے آٹوگراف میں یہ شعر تحریر کیا تھا جوآج تک میرے پاس محفوظ ہے کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں قتیل شفائی کی وجہ شہرت ان کی فلموں کے لیے کی گئی نغمہ نگاری ہے۔پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد سے انہوں نے اپنے ادبی سفر کا اغاز کیا اور ایسے ایسے لازوال گیت لکھے جو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ایسے تر و تازہ ہیں جیسے روزآسمان پر چاند چمکتا ہے اور ستار ے جھلملاتے ہیں۔محبت، جدائی ، ہجر، وصال کی کیفیات کے ان گنت زاویے ۔انہوں نے اپنے گیتوں اور نغموں میں اس طرح لکھے کہ جیسے کوئی دل کو دیا بنا دے۔ بنیادی طور پر عشق و عاشقی کے انسان تھے۔شادی ان کی کم عمری میں ہو گئی تھی مگر محبتیں زندگی بھر کرتے رہے۔ابھی 75 سال کی عمر میں بھی کسی بھارتی اداکارہ کے عشق میں مبتلا تھے۔قتیل شفائی کو اپنے وقت کی عظیم گلوکارہ اقبال بانو سے عشق ہوا لیکن ان سے شادی نہ کر سکے۔اسی عشق میں انہوں نیاقبال بانو کے لیے ایک طویل نظم مطربہ لکھی جو کتاب با عنوان مطربہ ہی شائع ہوئی اور اس کتاب کو آدم جی اوارڈ ملا۔قتیل شفائی کے کئی شعر زبان زد عام ہوئے اس طرح کہ وہ ضرب المثل بن گئے ۔ اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے بھی حالات نہیں ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں ’شاعری سچ بولتی ہے‘جیسا ضرب المثل مصرع بھی قتیل شفائی کی ایک نظم کا حصہ ہے۔ ایک کالم میں دو بڑے تخلیق کاروں پر بات کہاں ہوسکتی ہے یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے ادبی کاموں کی تحسین پر کتابیں لکھی جائیں تو کم ہے۔ یہ چند لفظ تو بس یاد کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔