آج کل یہ خبریں خاصی گردش میں ہیں کہ عمران خان نے الیکشن 2024سے دستبرداری کا اعلان کرکے پارٹی کی باگ ڈور تیسرے درجے کی قیادت کو سونپ دی ہے،،، جن میں بیرسٹر گوہر سرفہرست ہیں۔ لیکن لطیف کھوسہ گروپ کی جانب اس حوالے سے تردید کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پارٹی چیئرمین خان صاحب ہی رہیں گے لیکن اس کا انحصار اُن پر درج مقدمات کے فیصلوں پر منحصر ہیں۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ چیئرمین تحریک انصاف پارٹی عہدے سے دستبردار ہو گئے ہیں تو چیئرمین پی ٹی آئی ایک ایسے وقت میں نا اہل ہوئے ہیں جب ان کی جماعت کی تمام بڑی لیڈر شپ یا تو جیل میں ہے یا پارٹی چھوڑ چکی ہے یا کیسز سے بچنے کیلئے منظر عام سے غائب ہے۔چند ماہ پہلے تک تحریک انصاف میں تین طرح کی قیادت تھی : ایک وہ جنہوں نے اس جماعت کی بنیاد رکھی، دوسری وہ جو دوسری جماعتوں سے آئے یا لائے گئے لوگوں پر مشتمل تھی اور تیسری وہ جو اس جماعت کے سٹوڈنٹ ونگ سے سیاست کرتے ہوئے اوپر آئی۔لہٰذاخان صاحب کو چاہیے کہ وہ دوسرے درجے کی قیادت کا انتخاب اس حوالے سے کریں اور عثمان بزدار جیسا تجربہ نہ کریں کیوں کہ شاہ محمود قریشی بھی ابھی تک کسی کیس میں سزا یافتہ نہیں ہوئے اور نہ ہی پرویز الٰہی پر کوئی جرم ثابت ہو سکا ہے۔ لیکن شاید وہ پارٹی کمان اپنے پاس رکھنے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ خیر جوبھی ہو فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ ابھی بھی قوم کی اکثریت اُنہیں قبول کرنے کو تیار ہے ۔ میں یہ کب کہہ رہا ہوں کہ قائد کو ہمیشہ پرفیکٹ ہونا چاہیے، میرے خیال میںپرفیکٹ صرف آپ ﷺکی ذات گرامی ہے۔ اپنے قائد کے حوالے سے یہ دیکھیں کہ کیا وہ اپنے کام پرفیکٹ انداز میں کر رہا ہے،،، اگر کر رہا ہے تو بالکل ٹھیک ہے،،، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جس کام پر اُس کی ڈیوٹی ہے، وہ اُس میں کیسا ہے؟ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ نواز شریف بطور وزیر اعظم کیسا ہے؟ کیا اُس نے اپنے اقتدار میں عوام کے لیے کچھ کیا؟ کیا اُس کے آنے کے بعد عام لوگوں کے حالات بہتر ہوئے؟ اب اس کے برعکس وہ صبح اُٹھ کے نہاتا ہے یا نہیں نہاتا، یا برش کرتا ہے یا نہیں کرتا؟ وہ نماز کس انداز میں پڑھتا ہے، پڑھتا بھی ہے یا نہیں، ہمیں اس سے کیا غرض؟یعنی ہمیں تو بابر اعظم کی کرکٹ سے غرض ہو نی چاہیے، اس سے غرض تھوڑی ہونی چاہیے کہ وہ گھر میں لڑاکا ہے، اپنے خاندان والوں سے سلام بھی نہیں کرتا یا وہ آوارہ گرد بھی ہے۔ ہمیں کیا لینا دینا اُس سے ؟ بالکل اسی طرح ایک کمشنر، ڈپٹی کمشنریا کوئی بھی بیوروکریٹ اُس کے جو فرائض ہیں، کیا وہ پورے کر رہا ہے؟ اگر کر رہا ہے تو وہ بہترین آفیسر ہے۔ لیکن اگر ہم اُس کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ رات گئے گھر آتا ہے، وہ شلوار قمیض نہیں پہنتا ، یا اُس نے اپنی بیوی کو کسی وجہ سے طلاق دے دی ہے، ،، تو یہ اُس کی زندگی کے نجی معاملات ہیں۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ ہم اُس میں سے 100کیڑے نکالنا شروع کر دیتے ہیں، کہ وہ بندہ نماز صحیح نہیں پڑتا، وہ بندہ چار شادیاں کر چکا ہے، تو اس سے بھی ہمیں کیا لینا دینا؟تف ہے قومی سیاست پر کہ کبھی خاور مانیکا سامنے آتا ہے، کبھی بلوچستان کی کوئی خاتون کتاب لکھ لاتی ہے، کبھی سابق بیوی کے بیانات سامنے آ جاتے ہیں اور کبھی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگز ۔ اس سے قوم کو کیا فرق پڑتا ہے،،، کیا اس سے کسی کی مقبولیت میں فرق پڑے گا؟ لہٰذامعذرت کے ساتھ ہماری سیاست کا یہ بہت ہی اندھیر پہلو ہے، جہاں کچھ صاف دکھائی نہیں دیتا۔ بادی النظر میں اس حوالے سے تمام سیاستدانوں کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے، ،، ورنہ اگلی بار ی انہی سیاستدانوں کی آئے گی جو آج اقتدار میں ہیں۔ کم از کم تمام سیاستدان مل کر اس رجحان کی مذمت کریں کہ ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں کو ڈسکس نہ کیا جائے اور نہ ہی اُن پر کیچڑ اُچھالا جائے۔ بلکہ سب سے پہلے ن لیگ کو اس حوالے سے ایکشن لینا چاہیے، کہ وہ اپنی پارٹی کے قائدین کی بھی تربیت کریں کہ وہ کسی پر ذاتی حملے نہ کریں۔ کیوں کہ ن لیگ اس حوالے سے ’’ماسٹرسٹروک‘‘ کھیلنے کی ماہر ہے، اور شاید یہ بات تاریخ دان بھی کنفرم کریں کہ ذاتی کیچڑ اُچھالنے کی روایات ن لیگ نے ہی ڈالی ہیں، بے نظیر بھٹو صاحبہ کیساتھ ن لیگ نے جوکیا ہم لوگوں نے خود دیکھا،ان کی تقریباً نازیبا تصاویر ہیلی کاپٹروں سے اس لاہور شہر پر پھینکی گئیں،محترمہ نصرت بھٹو کی تصویریں پھینکی گئیں، جمائما خان کی کردار کشی کی گئی، شیریں مزاری کیساتھ پارلیمنٹ کے اندر جس طرح کی زبان استعمال کی گئی،لیکن پیپلزپارٹی کا اس حوالے سے ریکارڈ بہتر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی پراسس سے گزرے ہیں، اُن کا ایک اپنا نظریہ ہے۔ اور پھر آخری بات کہ کیاکسی پارٹی کو ختم کیا جاسکا ہے؟جس طرح پولیس سیاسی گرفتاریوں کے نام پر آجکل گھروں میں داخل ہورہی ہے، عوام کو مارتی ہے، چادر اور چارد یواری کا خیال بھی نہیں رکھتی۔ تو ایسے میں لوگ مصنوعی جمہوریت کوکب تک برداشت کریں گے۔ اس کا کیا کرنا ہے؟ آپ مشرف دور سے شروع ہو جائیں، ،، مخالفین کے خلاف کتنے مقدمے بنے ہیں،،، اور اُس میں اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں، تو اس سے عوام کا کیا فائدہ ہوا ہے؟ مجھے اُمید ہے کہ اس میں سے نکلنا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر یہ سب کچھ کس لیے؟ یہاں تو اُن کا حساب نہیں کیا گیا جنہوں نے آرمی چیف کا جہاز اغوا کیا تھا۔ حالانکہ اس اقدام کی سزا پھانسی سے کم نہیں ہے ۔ یہاں مقدمات کا وقتی فائدہ تو ہو جاتا ہے مگر دیرپا فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ ملک میں کسی جماعت کو سائیڈ لائن نہیں ہونا چاہئے، ایسا کرنا کسی بارود کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے کے مترادف ہے جسے کسی دشمن ملک کی طرف سے ہی اگر چھیڑ دیا گیا تو یہ ملک کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ اور خاکم بدہن یہ ملک کو لے ڈوبے گی۔