بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں آپ کو فوزیہ کی کہانی سناتی ہوں اس کہانی میں وہ روشنی ہے جو آج کے کالم کے ذریعے میں اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتی ہو ں۔ فوزیہ کی کہانی حوصلے اور عزم مسلسل کی قابل تقلید مثال ہے۔اور اس کہانی کا ایک بنیادی سبق یہ بھی ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں ہمارے لیے امکانات اور مواقع کے جہان آراستہ ہورہے ہیں ۔اس نئی دنیا کو فتح کرنے کے لیے ہمیں ڈیجیٹل سکلز سیکھنا ضروری ہے ۔فوزیہ دو سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہوئی وہ اس بیماری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بڑی ہوئی ہیں بڑی ہمت سے انفرمیشن ٹیکنالوجی میں بی ا یس بھی کرلیا ۔ گھر کے معاشی حالات بھی تنگ تھے اور فوزیہ بھی چاہتی تھی کہ وہ کسی پہ بوجھ نہ بنے ۔سو اس نے ایک ویئرہاؤس میں پروگرامر کی جاب کرلی پولیو زدہ ٹانگ کے ساتھ روزانہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آنا جانا اس کے لیے آسان نہ تھا آدھی سے زیادہ تنخواہ کرایوں پر اٹھ جاتی۔2018میں فوزیہ نے ورک فرام ہوم کے آپشن پر غور کرنا شروع کیا کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں کس طرح پیسے کمائے جاسکتے ہیں وہ ادھر ادھر سے معلومات لیتی رہی لیکن کہیں سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔فوزیہ بتاتی ہے کہ ایک روز مایوسی کے عالم میں میں اخبار میں ایک اشتہار پر نظر پڑی جو ای روزگار سنٹر کے حوالے سے تھا اگرچہ امید تو نہیں تھی لیکن پھر بھی میں نے سوچا کہ چلو اپلائی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی فوزیہ نے پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس میں ایک روزگار سنٹر میں تین مہینے کی ٹریننگ لی فوزیہ بتاتی ہے کہ پندرہ دن میں ہی مجھے پہلا آرڈر پانچ ڈالر کا ملا۔یہ اگرچہ کم رقم تھی لیکن مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ واقعی انٹرنیٹ کی دنیا میں پیسے کمائے جا سکتے ہیں کیونکہ ابھی تک تو میں اس کو فراڈ سمجھتی تھی مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی کلائنٹ فزیکلی ملے اور جانے بغیر کیسے آپ پر اعتبار کر سکتا ہے کیسے کوئی آپ کو ڈالروں میں پیمنٹ کر سکتا ہے۔اب فوزیہ ویئرہاؤس کی ملازمت چھوڑ چکی ہے اور اپنی ارننگ انٹرنیٹ پر کام کرکے ہی کر رہی ہے۔و با کے زمانے میں جب اس کے بھائیوں کے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے تو فوزیہ نے نہ صرف اپنے گھر کو بخوبی چلایا بلکہ اپنی چھوٹی بہن کی شادی بھی ڈیجیٹل سکلز سے کمائے گئے پیسوں سے کی۔اپنی ڈیجیٹل سکلز سے اتنا کما لیتی ہے کہ اسے باہر کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔فوزیہ کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے انٹرنیٹ پر کام کرنے کے بے شمار مواقع ہیں وہ ڈیجیٹل سکلز سیکھ کر بہت آسانی سے اپنے معاشی حالت بہتر بنا سکتی ہیں۔ عالمی اکنامک میگزین میں ہونے والے سروے یہ بتاتے ہیں 2030 تک روایتی انداز کی نوکریاں 80 تک فیصد ختم ہو جائیں گی۔ان کی جگہ آن لائن کام کرنے والے افراد لے لیں گے۔آن لائن دنیا کی صورت ایک نئی کائنات ہماری دنیا کے متوازی بن چکی ہے۔یہ ڈیجیٹل دنیا ایک حقیقت ہے۔اس میں کاروبار کرنے اور فری لانسنگ کے ذریعے پیسے کمانے کے بے شمار مواقع ہیں۔اس وقت پاکستان میں کروڑوں موبائل یوزرز ہیں جن کے ہاتھوں میں سمارٹ فون موجود ہے ان کے پاس انٹرنیٹ پیکجز ہیں۔ پاکستان کی 63 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سارے نہیں تو چالیس فیصد نوجوانوں کے ہاتھ میں میں اینڈرائڈ موبائل فون ہیں۔اگر ان جوانوں کی زندگیوں کو سمت دینی ہے تو بہت ضروری ہے کہ ان کو ڈیجیٹل ہنر سے آراستہ کیا جائے۔پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے 2017 میں ای روزگار پروگرام شروع کیا تھا اس وقت پنجاب میںشہباز شریف کی حکومت تھی اس کے بعد 2018 میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ای روزگار پروگرام جاری رہا ۔اس پروگرام کے تحت پورے پاکستان میں 45 ای روزگار سنٹرز کھولے گئے ہیں جنہیں یونیورسٹیز کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ نوجوان ایک روپیہ فیس دئیے بغیر ای روزگار سنٹرز سے اپنے رحجان کے مطابق ہنر سیکھ کر خود کو باروزگار کرسکتے ہیں۔ای روزگار سینٹر سے اب تک 41000 ہزار نوجوان خود کو مختلف طرح کے ڈیجیٹل ہنر سے آراستہ کر چکے ہیں اور کامیابی سے ڈیجٹل دنیا میں اپنا روزگار کما رہے ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ای روزگار سنٹرز سے ہنر سیکھنے والوں میں خواتین کا تناسب 54 فیصد ہے۔ کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے خواتین پوری دنیا میں اپنے ڈیجیٹل ہنر کے ساتھ کام حاصل کر رہی ہیں۔ انہیں اپنے کام کی ادائیگی ڈالرز میں ہوتی ہے اسی ہنر کے ساتھ اگر وہ اپنے شہر میں فزیکلی کام پر جائیں تو انہیں اتنی اچھی ادائیگی نہیں ہوتی اور ان کے آنے جانے کے اخراجات پر بھی تنخواہ کا کافی حصہ اٹھ جاتا ہے اب جبکہ پٹرول کی قیمتیں ویسے ہی ظالمانہ حد تک بڑھ چکی ہیں تو دفتر آنے جانے کے اخراجات ڈبل سے بھی زیادہ ہوگئے ہیںجبکہ ڈیجیٹل سکلز سیکھ کر خواتیں اپنی گھروں میں ببٹھ کر دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ اسائنمنٹ بیسڈ کام کرکے ڈالرز کما رہی ہیں۔فوزیہ کی کہانی بہت تحریک دینے والی ہے۔ فوزیہ کی طرح پاکستان میں بے شمار خواتین انٹرنیٹ پر ڈیجیٹل ہنر سے اپنے حالات بہتر کر رہی ہیں۔ڈیجیٹل سکلز سیکھنے کیلئے نئے لوگ کبھی یوٹیوب کی ویڈیو دیکھتے ہیں کبھی فیس بک کے گروپ سے کوئی ڈیجیٹل گرو تلاش کرتے ہیں ۔ وقت الگ ضائع ہوتا ہے اور بات بھی نہیں بنتی۔ڈیجیٹل سکھانے کے پرائیویٹ ٹریننگ سنٹر ہزاروں میں فیس چارج کرتے ہیں سیکھنے کے خواہشمند بھاری فیسوں کی وجہ سے سیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ضرور اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان تمام صوبوں میں اسکول اور کالج یونیورسٹی کی سطح پر ڈیجیٹل سکلز کی تعلیم کو لازمی کردے طالب علم اپنی روٹین کی تعلیم کے ساتھ ڈیجیٹل سکلز سے آراستہ ہوں طالب علم اس طرف فطری رجحان رکھتے انہیں صرف قابل بھروسہ سرپرستی کی ضرورت ہے۔سرِدست اگر پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ای روزگار سینٹرز کی تعداد بڑھا دے تو زیادہ سے زیادہ نوجوان اور طالب علم مفت ڈیجیٹل سکلز تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔