پاکستان میں لاتعداد ایسے دانشور اور نوآموز ذہین نوجوان ہیں جن کی سوچ و فکر، سعادت حسن منٹو کے افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے پاگل خانے میں یورپین وارڈ کے دو اینگلو انڈین پاگلوں جیسی ہے۔ منٹو ان کے بارے میں لکھتا ہے، ’’ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں، تو انہیں بہت صدمہ ہوا۔ وہ چُھپ چُھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اُڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملے گا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کی جگہ بلڈی انڈین چپاتی تو زہرمار نہیں کرنا پڑے گی‘‘۔ بھارت میں بھی اس قبیل کے بے شمار ’’انٹلیکچوئل ‘‘پائے جاتے ہیں۔ ان کی انگریز سے محبت یا انگریزی عہدِ غلامی سے عقیدت کی وجوہات تو سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہیں اس بہانے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ سنہری دور پر نفرین بھیجنے کا آسان نسخہ ہاتھ آ جاتا ہے اور دوسری یہ حقیقت کہ 1857ء کے بعد انگریز نے ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کے اپنے مکروہ سیاسی اُصول کے تحت تقریباً ایک سو سال ہندوئوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی اور انہیں اہم انتظامی اور سیاسی عہدوں پر متمکن کیا۔ لیکن پاکستان کے اس ’’دانشور طبقے‘‘ کے گلے میں برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ سنہری دور گلے میں ہڈی بن کر مسلسل چبھتا رہتا ہے۔ ہندوستان کے چپے چپے پر اس دور کی خوشحالی کی علامتیں شاندار اور پُرشکوہ عمارتوں کی صورت نظر آتی ہیں۔ متعصب ہندو، ان پُر شکوہ عمارتوں سے اس لئے بھی نفرت کرتا ہے کہ برصغیر کی 5 ہزار سالہ تاریخ میں صرف ڈھائی سو سال ہی ہیں، جب دو ہندو خاندانوں گپتا اور موریہ کی ہندوستان پر مرکزی حکومت قائم رہی۔ لیکن اس حکومت کے ایسے پُرشکوہ آثار خلیج بنگال سے لے کر طورخم تک کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ جبکہ صرف ایک مسلمان حکمران شیر شاہ سُوری کے پانچ سالہ دور میں بننے والی لنڈی کوتل سے راس کماری تک 2500 کلو میٹر طویل جرنیلی سڑک ہے، جس کے ہر دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک کوس مینار، پانی کا کنواں اور رات گزارنے کے لئے سرائے تعمیر تھی، اسی سڑک کے دونوں اطراف پھل دار درخت تھے اور ایک مناسب فاصلے پر ڈاک کی ترسیل کیلئے چوکیاں تھیں۔ یہ دنیا میں سب سے پہلا منظم ڈاک کا نظام تھا۔ مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ روشن تاریخ کے صرف ایک حکمران کے دور کی ترقی ہے جو اس ہندوستان کے ماتھے پر روشن علامت کے طور پر نظر آتی ہے۔ تقریباً پونے پانچ سو سال قبل جب ہندوستان نے اپنے وقت کی یہ جدید ترین ’’موٹروے‘‘ بنائی تھی تو اس وقت یورپ کے شہروں کی اندرونی گلیاں بھی پختہ نہیں تھیں۔ بارش ہوتی، یا برف پڑتی تو مکینوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو جاتا۔ شیر شاہ سُوری 22 مئی 1545ء کو فوت ہوا، اس کے بعد ہندوستان کے ڈیڑھ سو سال تو ایسے ہیں جیسے کسی عمارت کی تعمیر کے آخر میں اس کی بیرونی فصیل پر میناکاری کی جا رہی ہو۔ اکبر، جہانگیر اور شاہجہان سے اورنگزیب عالمگیر تک پورا ہندوستان خوبصورت عمارتوں سے جگمگا اُٹھا۔ شیش محل سے تاج محل اور شالامار باغ سے فتح پور سیکری تک ایک ستاروں بھرا آسمان ہے جو سرزمین ہندوستان پر جگمگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ دنیا کے تمام مؤرخین اس بات پر شاہد ہیں کہ ایسی عمارتیں کسی قوم کی خوشحالی کی علامت ہوتی ہیں۔ جن خطوں میں بھوک و افلاس ہو، وہاں میناکاری، منبت کاری اور کاشی کاری جیسے مہنگے کام کے لاکھوں کاریگر پیدا نہیں ہوا کرتے۔ تمام ماہرینِ آثارِ قدیمہ اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ عظیم لوگ جنہوں نے تاج محل جیسی لاتعداد عمارتیں بنائیں وہ یقیناً جیومیٹری اور انجینئرنگ کے علم میں اس حد تک ماہر تھے کہ جدید دور میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنیوالا کوئی انجینئر بھی ایسی مہارت نہیں رکھتا۔ تعمیرات کا یہ علم انہوں نے یقینا کسی مدرسے کالج، یا یونیورسٹی سے ہی حاصل کیا تھا۔ میرے ملک کا بددیانت دانشور تاریخ کے وہ ورق پھاڑ کر پھینک دیتا ہے جس میں مسلمانوں کے دور میں حصولِ علم کے روشن ادارے نظر آتے ہیں۔ لیکن تاریخ تلف تو کبھی نہیں ہوتی۔ گورنمنٹ کالج لاہور 1840ء میں قائم ہوا تو اس کے پہلے پرنسپل گوٹلیب ولیم لائٹنر (Gottlieb Wilhelm Leitner) نے جہاں اس خطے کی تاریخ پر بے شمار کتابیں لکھیں وہیں 1882ء میں اس نے ’’مقامی تعلیم کی تاریخ‘‘ (History of Indigenous Education) لکھ کر اس بات کی تصدیق کر دی کہ 1849ء تک پنجاب کا تعلیمی نظام اس قدر شاندار تھا کہ پورے خطے میں شرح خواندگی سو فیصد تک تھی۔ لائٹنر کے بعد آنیوالے بے شمار مؤرخین نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کیا ہے کہ مغلیہ دور کا تعلیمی نظام اس قدر شاندار تھا کہ بقول لارڈ میکالے یہاں کا عام آدمی ایسے اُمور پر گفتگو کرتا جن کا تصور آکسفورڈ اور کیمبرج میں بھی نہیں تھا۔ 1930ء کی دہائی میں پنڈت سُندرلال نے ہندوستان کے چپے چپے میں موجود ان تعلیمی اداروں کا نقشہ مرتب کیا ہے جو انگریز کے آنے کے بعد بند کر دیئے گئے۔ سُندر لال کے کام کو دھرم پال نے 1993ء میں اکٹھا کر کے "Golden Tree" نام سے چھاپ دیا جو اس بات کی گواہی ہے کہ انگریز کی آمد سے پہلے سارے ہندوستان میں کہیں بھی 95 فیصد سے کم شرح خواندگی نہ تھی۔ سُندر لال کے کام کی بنیاد پر ہی گاندھی نے 20 اکتوبر 1931ء کو لندن میں، کیتھم ہائوس، میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’میں انتہائی یقین کے ساتھ یہ کہتا ہوں میرے ان اعداد و شمار کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان آج زیادہ جاہل اور اَن پڑھ ہے جتنا وہ پچاس یا سو سال پہلے تھا‘‘۔ گاندھی جیسی ہی ایک اور آواز مئی 2015ء میں اسی انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ششی تھرور کی بلند ہوئی، جب اسے آکسفورڈ یونین میں خطاب کے لئے بلایا گیا۔ ششی کی یہ تقریر سحرانگیز ہے۔ ششی 29 سال تک اقوام متحدہ کا انڈر سیکرٹری جنرل رہ چکا ہے۔ وہ پندرہ کے قریب کتب کا مصنّف اور فلیچر (Fletcher) سکول سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ ہے جبکہ اسے ورلڈ اکنامک فورم ڈیوس (Davos) نے مستقبل کا عالمی لیڈر کہا ہے۔ اس وقت وہ بھارت میں بی جے پی کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔ ششی کی تقریر اس قدر شاندار تھی کہ جی چاہتا تھا کہ کوئی اس شخص کو مشورہ دے کہ اس موضوع پر ایک مکمل کتاب لکھ ڈالے۔ اس کی تقریر کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ انگریزوں نے ہندوستان کی ایک عظیم سلطنت کو ایک منصوبے کے تحت تباہ و برباد کیا۔ ششی یہ کام کر گزرا اور اگلے سال ہی اس موضوع پر اس کی کتاب ’’تاریکی کا دور ‘‘ (An Era of Darkness) کے نام سے بھارت میں چھپ گئی جسے چند ماہ بعد پینگوئن نے ’’بدنام بادشاہت ‘‘ (Inglorious Empire) کے نام سے چھاپ دیا۔ پوری کتاب برطانیہ کی لوٹ مار پر حقائق سے بھری ہوئی ہے۔ کتاب میں، صنعتی بربادی سے لے کر تعلیمی تباہی تک، ایسے خوفناک اعدادو شمار آپ کو ملیں گے کہ آپ پڑھ کر کانپ اُٹھیں گے۔ اس کتاب کے مارکیٹ میں آنے کے بعد سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ کوئی ’’دیوانہ‘‘ اس کا اُردو ترجمہ بھی کر دے تاکہ پاکستان کا عام آدمی ’’نام نہاد دانشوروں‘‘ کے جھوٹ کے سحر سے باہر آئے اور اسے حقیقت کا علم ہو۔ ایک نوجوان سجاد احمد سجاد نے اس کا ترجمہ ’’سامراجی حکومت کی داستان‘‘ کے نام سے کر دیا ہے۔ جسے لاہور بُک سٹی نے چھاپا ہے۔ ترجمہ تو بہت ہی خوب ہے۔ کتاب کا ہر صفحہ آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گا کہ مہذب کہلانے والا برطانوی استعمار اپنی سفید چمڑی، سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والے خوبصورت روپ میں کس قدر ظالم تھا۔