دشمن داریوں پر کالم شائع ہوا تو کئی مہربانوں نے نئی معلومات فراہم کیں۔لاہور میں معروف شخصیات کی آخری آرام گاہوں پر تحقیق کرنے والے نوجوان دوست مرزا عثمان بیگ نے بتایا کہ بلا ٹرکاں والا،ٹیپو ٹرکاں والا اور امیر بالاج کی قبریںمیانی صاحب قبرستان میں ہیں۔ طاہر پرنس اورمحمد شریف عرف جگا گجر بھی میانی صاحب میں مدفون ہیں۔میاں اخلاق گڈو اور ان کے والد میاں معراج دین عرف ماجھا سکھ کی قبریں داروغہ والا میں ان کے فیملی احاطے میں ہیں۔روحیل اصغر کے والد شیخ اصغر اور بھائی شکیل اصغر کی قبریں انٹر ووڈ فیکٹری کے سامنے شاہ گور قبرستان کے احاطے میں ہیں۔سابق سپرنٹنڈنٹ جیل جناب گلزار احمد بٹ سے میں نے بشریٰ بی بی عرف بُچھو کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت جیلر تھے جب بشریٰ اور اس کا سارا خاندان جیل میں تھا۔ بشریٰ لاہور کے علاقے ہنجروال کے یو سی چئیرمین کی اہلیہ تھی، وہ کھوکھر برادری کی بیٹی اور دلیر خاتون تھی۔بشریٰ نے شوہر اور بھائی کے قتل ہونے کے بعد خود دشمن داری نبھائی، اس کے ایک بھائی کوڈو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔رانا زہیر صاحب نے فون پر بتایاکہ شیخ اصغر نے ان کے والد رانا نذر الرحمان کو قتل سے کچھ عرصہ قبل خود جان کو خطرے کی بابت بتایا تھا، رانا صاحب نے میری تصحیع کی کہ روحیل اصغر اور اخلاق گڈو نے صلح نہیں کی تھی بلکہ روحیل اصغر کا بھائی شکیل اصغر جب قتل ہوا تو اس کی بیوہ نے لاش کے پاس کھڑے ہو کر دشمنی ختم کرنے اور بدلہ نہ لینے کا اعلان کیا۔جس کے بعد دونوں خاندان امن سے رہنے لگے۔ لاہور ایک بڑا شہر تھا، یہاں وقفے وقفے سے مختلف علاقوں سے نامور اور یگانہ روزگار لوگ آتے رہے ہیں۔نئے چودھری آتے تو پہلے والوں کو خطرہ محسوس ہوتا۔میلوں ٹھیلوں ، اکھاڑوں اور بازاروں میں گھور کر دیکھنے پر لڑائی ہو جاتی۔کسی کاروبار پر اجارہ داری کا جھگڑا ہو جاتا۔ طاہر علی بندیشہ اور رضوان نصیر نے توجہ دلائی کہ لاہور تو شاہ حسین کی دھرتی ہے یہاں قتل و غارت جیسی روایات کیسے آ گئیں۔میں نے عرض کی کہ لاہور کی سماجی تاریخ کو صرف ادب اور سیاست کے پہلو سے دیکھا گیا ہے،کچھ اور بیان کیا گیا تو وہ موسمی تہواروں، موسیقی ، ملبوسات، پھولوں اور کھانوں سے متعلق ہے۔دشمن داری اور جرائم پیشہ افراد کو یہاں ایک ہیرو کا درجہ دیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ ایسے افراد کا حکومت کے ظالمانہ کردار کے سامنے ڈٹ جانا اور عام لوگوں کے ساتھ تعلق کو اہمیت دینا ہے۔پنجاب میں ہیر اور مرزا ہی نہیں جگا بھی گایا جاتا ہے۔لاہور والا جگا محمد شریف ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں جگجیت سنگھ جگا تھا جس پر لوک گیت بنے۔ ایک واقعی سن رہا تھا کہ برسوں پہلے فلمی ہیروئنوں نے شکایت کی کہ کچھ لوگ انہیں اپنے ڈیروں پر مجرے پر مجبور کرتے ہیں،جب جی چاہتا ہے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔پولیس اور دوسرے ادارے اس پر کارروائی نہیں کرتے ۔سلطان راہی ، یوسف خان اور کچھ دوسرے سینئر اداکار مدد کی درخواست لے کر بلا ٹرکاں والے کے پاس گئے۔ بلاٹرکاں والے نے بے مروتی سے معذرت کرلی ۔اس کا کہنا تھا کہ وہ فلمی عورتوں کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا۔اداکاروں نے بہت اصرار کیا تو اس نے اتنا وعدہ کیا کہ وہ پریشان کرنے والے لوگوں کو روک دے گا لیکن کوئی شوبز والی عورت اس کے پاس نہ آئے۔ بلا نے اپنے نوجوان بیٹے ٹیپو کو ہدایت کی کہ کبھی ان عورتوں کی پنچائٹ نہ کرنا، ٹیپو نے ساری زندگی اس نصیحت پر عمل کیا،ٹیپو دشمن داری اور دوسرے کاموں میں بہت آگے گیا لیکن فلمی ہیروئنوں سے دور رہا۔طیفی بٹ اور ٹرکاں والا خاندان میں دشمنی کی وجہ صرف علاقے میں چودھراہٹ کا معاملہ تھا جو درجنوں خوبصورت لوگوں کی جان لے چکا ہے۔اس دشمنی نے علاقے کے بہت سے نوجوانوں کو ان خاندانوں کی سر پرستی میں بد معاشی اور جرائم کی طرف دھکیل دیا۔ایسی دشمنیوں سے جب معاشی مفادات وابستہ ہو جائیں تو یہ طویل ہو جاتی ہیں۔ لاہور کے بدمعاشوں کی اکثریت خاندانی دشمنی سے سامنے آئی۔جو مالی طور پر تگڑے تھے وہ بدمعاشی کا دبستان بن گئے ،جو کمزور اور بے بس تھے وہ ان کی چھتری تلے آ کر توانا ہو گئے۔یوں تو اس شہر میں بڑے بڑے سورما ہوئے لیکن ماضی کی کچھ شخصیات نے ایک عالم کو متاثر کیا۔یاد رہے ڈیفنس لاہور میں گم ہو جانے والے گاوں ’’گوہاوا‘‘ میں امام دین گوہاویا کو انگریز نے ڈاکو اور جرائم پیشہ قرار دے کر مارا تھا۔ شیرانوالہ گیٹ کے رہنے والے بابو کے نام سے کون واقف نہیں تھا۔ پورے ہندوستان میں وہ کوکین کے بادشاہ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی زندگی سنسنی خیز واقعات سے بھری تھی۔ درجنوں بار مسلح پولیس کا مقابلہ کیا۔ بابو کو پولیس مقابلوں سے زیادہ دوسرے علاقوں کے غنڈوں سے اپنے محلے کی عزت کے لیے ہونے والی لڑائی پر فخر تھا۔ ’نقوش‘‘ کے مضمون نگار نصیر انور کے مطابق بابو نے جوانی میں کوکین فروشی کا آغاز کیا۔ کوکین فروشی کے باوجود انگریز پولیس اسے گرفتار نہ کر سکی۔ پولیس نے سینکڑوں بار چھاپہ مارا مگر ہر بار ناکام رہی۔ ایک بار پولیس کو مخبری ہوئی کہ بابو کوکین لینے کار میں راوی کے پل پر سے گزرنے والا ہے۔ پل پر راستہ روکنے کے لیے بیل گاڑیاں کھڑی کر دی گئیں۔ بابو نے دور سے بھانپ لیا اور ساری کوکین دریا میں پھینک دی۔ پولیس سے تصادم ہوا لیکن کچھ برآمد نہ ہوسکا۔ ایک جعلی مقدمہ درج ہوا جس میں بابو بری ہو گیا۔ شیرانوالہ گیٹ کے غنڈوں کی ٹولیاں تھیں۔ ہر ٹولی صرف غنڈے نہیں تھے بلکہ ایسی بے پناہ قوت تھے جو دشمن داری اور جرائم کے کام آ سکتے تھے۔ ان کے سینوں میں بجلیاں بھری تھیں لیکن یہ طاقت انگریز سے آزادی چھیننے کے کام نہ آ سکی۔ ’’انگریز عہد میں لاہور کے ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی غنڈہ ضرور ہوتا تھا۔ ایک محلے کا غنڈہ دوسرے محلے کے غنڈے کو نیچا دکھانے کے لیے وہ اس کے علاقے میں آ کر لڑتا تھا۔ باہمی دنگا فساد معمول بن چکا تھا۔ مگر ایک بات تھی کہ ہر غنڈہ اپنے محلے کی عزت کا محافظ ہوتا اور وقت پڑنے پر جان تک قربان کر دیتا۔‘‘ موچی دروازے میں استاد نامی غنڈے کا راج تھا۔ اس کی بیٹھک اس کا دربار تھی۔ درمیانہ قد، گھٹا ہوا جسم، بارعب چہرہ، تیز چمکتی آنکھیں۔ استاد سے کون آنکھ ملا سکتا تھا۔ ایسے لوگ اس کے پاس تھے جو جی دار تھے۔ جو دہشت ناک تھے۔ استاد نے ان لوگوں کو تین گروپوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک گروپ میں باکمال جیب تراش تھے، نوعمر آوارہ لڑکے تھے۔ بارونق علاقوں، منڈیوں، لاری اڈوں اور ریلوے سٹیشن پر جیبیں صاف کرتے۔ سب مال جوں کا توں استاد کے سامنے پیش کر دیتے۔ دوسرا گروہ جوا خانہ چلاتا تھا۔(جاری ہے)