سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی بنچ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات نوے روز کی طے شدہ مدت میں کرائے جانے کا فیصلہ سنادیا ہے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو مشاورت کے ذریعہ تاریخ کے تعین کا پابند کر دیا ہے ۔ اس بنچ کے دو ارکا ن نے اختلاف کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا ا ز خود نوٹس لیا جانا ہی غلط ہے کیونکہ یہ معاملہ پہلے ہی ہائی کورٹس میں زیر سماعت ہے۔اس سے قبل بنچ کی تشکیل کے بعد دو ججز نے بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ پہلے سے موجود سیاسی اور انتظامی سطح پر موجود انتشار کے بعد اب عدلیہ میں بھی اختلافات اور افتراق سے ریاست کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے موجودہ سیاسی کشمکش اور غیر ضروری محاذ آرائی نے اب ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے جو کسی بھی طرح ریاست کے مفادات میں نہیں ہے۔ پارلیمنٹ ،سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے سیاسی سطح پر اٹھنے والے موجود تنازعات کو آئین کے مطابق طے کرنے میں جس تساہل اور تغافل کا مظاہرہ کیا ہے وہ نہ صرف باعث تشویش ہے بلکہ ان اداروں کے جواز پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ایک تحریری آئین کے ہوتے ہوئے پارلیمنٹ اور اس کے اراکین سیاسی تنازعات حل کرنے سے عاجز ہو ( یا حل کرنا ہی نہ چاہتے ہوں) باعث حیرت ہے پھر یہ کہ اس طرح ہر سیاسی معاملہ عدالتوں کے سپرد ہوتا رہے گا تو پھر عدالتیں ، ان کے فیصلے اور ان کی غیر جانبداری کا تشخص سب کچھ سیاسی نا معقولیت کی زد میں آئے گاجس سے اعلی عدالتوں کا وقار اور تفویض شدہ ان کے آئینی کردار کا متاثر ہونا یقیی ہے۔اس پیش آمدہ صورت حال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عدلیہ سیاسی تنازعات سے خود کو علیحدہ رکھے اور بیشتر سیاسی معاملات کے لئے وہ پارلیمنٹ میں طے کئے جانے پر مصر رہے۔ انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ جو تحلیل کی گئی پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دیئے جانے کے اختیار کی آئینی تشریح کرتے ہو ئے کیا گیا اسے سیاسی سطح پر تو متنازعہ ہونا ہی ہے تاہم عدلیہ کے معزز ججز کے درمیان افتراق کی موجودگی نے اس کی شدت میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو کسی طرح بھی عدلیہ کے ادارتی وظائف کے لئے مناسب نہیں۔ اپنے مناصب کی ذمہ داریوں کے تناظر میں معزز ججز کو بھی اس پر ضرور غور کرنا چاہیئے۔ اسی کے ساتھ سیاسی قیادت کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ کمزور ہوتی ریاست اب ان کی غیر ضروری سیاسی محاذ آرائی کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی۔عدالتی فیصلے کے اتباع میں اب انتخابات سے گریز ممکن نہیں اور نہ ہی کسی قانونی شق کی بنیاد پر اس کا التوا ، سیاست اور ریاست ،کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔جمہوری سیاست میں حکومتوں کا بننا بگڑنا اور انتخابات کا انعقادسیاسی عمل کا حصہ ہوتا ہے ۔اس سے سیاست دانوں کا فرار اور اس پر مصر رہنا ان کے اعتبار اور جمہوری عمل سے ان کی وابستگی کو کمزور کرتا ہے ۔ موجودہ خراب تر معاشی حالات میں کئے جانے سخت اور مشکل فیصلوں کی وجہ سے وفاق میں بر سر اقتدار حکومتی اتحاد یہ سمجھتا ہے کہ عوام میں اس کی سیاسی ساکھ کمزور ہوئی ہے جس کا لامحالہ سیاسی فائدہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کو ہوگا۔ یہ اندیشہ یا خدشہ خواہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو انتخابات سے گریز کی مسلسل حکمت عملی سے بھی ا ن کی سیاسی ساکھ اور عوامی حمایت میں کمی ہو رہی ہے جلد یا بدیر انتخابات ہونے ہی ہیں اور اس حکومتی اتحاد کو عوام کا سامنا کرنا ہی ہے اگر وفاقی حکومت سخت اور مشکل معاشی فیصلوں کے لئے خود کو حق بجانب سمجھتی ہے تو اسے پورے اعتماد کے ساتھ اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیئے۔ انتخابات میں ہار اور جیت جمہوری سیاسی عمل کا حصہ ہے،ہار کے خوف سے انتخابات سے گریز ۔ مگر کب تک؟ . کوئی بھی سیاسی حکومت عوام کی حمایت اور اس کے اعتبار کے بغیر زیادہ دیر نہیں رہ سکتی اور اس کا پیمانہ انتخابات ہی ہیں۔ اس وقت نہ صرف پنجاب اور خیبر پختون خو ا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کو طے شدہ مدت میں ممکن بنایا جائے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پورے ملک کی سطح پر عوام کو نئی حکومتیں منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ سر دست یہ ہی مناسب حل ہے جس سے موجودہ غیر یقینی سیاسی فضا اورکشیدگی ختم کرنے میں مدد مل سکے گی۔ ملکی سیاسی صورت حال کی بہتری کے باعث عالمی سطح پر معاملات طے کئے جانے میں ریاست کی پوزیشن بھی مستحکم ہو جائیگی جو موجودہ کشیدہ سیاسی صورتحال میں خراب ہو چکی ہے۔ I.M.F. سے معاملات طے کرنے میں تعطل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ پورے ملک میں انتخابات کے انعقاد سے ریاست پر پڑنے والے مالیاتی بوجھ کو بھی کم کیا جاسکے گا۔جو پہلے پنجاب او ر خیبر پختون خوا اور پھر اکتوبر میں قومی اور بقیہ صوبائی اسمبلیوں کے انعقاد کی صورت میں اس معاشی بحرانی کیفیت میں ریاست کو درپیش ہے۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو پورے ملک کی سطح پر انتخابات کے انعقاد کے لئے تیار ہو جانا چاہیئے ۔یہ ہی وقت کا تقاضہ ہے اور اسی میں ان کے سیاسی مستقبل کا محفوظ راستہ ہے۔ ریاست کی سلامتی اور اس کی بقا سب پر مقدم ہے ۔ پہلے ریاست اور پھر سیاست کے نعرے کے عملی مظاہرے کا وقت آپہنچا ہے۔فیصلہ حکومتی اتحاد کو کرنا ہے جس میں تاخیر کی اب گنجائش نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭