شہر میں داخل ہوا تو ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگا۔جہاندیدہ لوگوں نے دور سے ہی مجھے دیکھ لیا کہ کام کا دانہ ہے۔ فوراً مظہر کا شعر یاد آ گیا مسّی پھیکی کاجل پھیلا کان کا ڈھیلا بالا ہے مظہر ہم بھی تاڑ گئے کچھ دال میں کالا کالا ہے ایک صاحب بڑے کایاں سے لگتے تھے میرے قریب آئے اور پوچھا کیا آپ شہر میں نئے آئے ہیں۔ جب انہیں بتایا کہ آپ کا اندیشہ یا اندازہ درست ہے تو کہنے لگا کیا آپ نے غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ پڑھا ہے۔عرض کیا پڑھا ہے مگر اب خود ملکی سیاح کا سفر نامہ لکھنے کا ارادہ ہے کچھ رہنمائی فرمائیں۔ان کے چہرے پر ہلکی سی میسی مسکراہٹ نمودار ہوئی بولے سارا شہر ہی دیکھنے والا ہے۔ میں نے پوچھا شہر میں لکی ایرانی سرکس کا بہت شور ہے وہ کس طرف لگا ہے۔ جواب ملا ابے ناہنجار (یہ لفظ بمعنی اپنی تعریف کے سن کر دل خوش ہوا کہ یہاں شستہ مزاج لوگ موجود ہیں) یہاں سے ایرانی سرکس کب کے ہوا ہو گئے۔ اب سارا سرکس پاکستانی ہے اور اب لکی پاکستانی سرکس کا دور دورہ ہے۔پاکستانی قوم اپنے سرکس میں خودکفیل ہو گئی ہے۔یہ مژدہ جانفزا سنا کر وہ خود بھی ہوا ہو گیا۔ وہ شاید سرکس کا کوئی آدمی تھا۔ اب سرکس کا احوال درج کرتا ہوں۔ ایک جگہ شعلے بلند ہو رہے تھے۔اس طرف ہو لیا۔شعلے تھے کہ آسمان کو چھو رہے تھے اور تپش تھی کہ وہاں رکنا محال ہو رہا تھا مگر برا ہوا، اس سیاحت کے شوق کا وہاں تھوڑی دیر رکا۔لوگ تھے کہ گز گز لمبی زبانوں والے۔ سارے ایک دوسرے کی جانب شعلے پھینک رہے تھے۔آگ کے گولے تھے جو ایک دوسرے کو مارے جا رہے تھے۔مگر کوئی بھی دونوں طرف سے جل نہیں رہا تھا۔ایسے لگتا تھا برف کے گالے ایک دوسرے کو مارے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی طرف آگ کے گولے پھینکتے پھینکتے اچانک وہاں خاموشی چھا گئی۔سب ایک دوسرے کی جانب لپکے اور جو جس کے سامنے آیا، وہ اسی سے بغل گیر ہو گیا۔ہم نے ساتھ کھڑے تماشبین سے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں، ابھی تو ایک دوسرے پر آگ پھینک رہے تھے اب یہ صورت حال کیسے تبدیل ہو گئی۔وہ بولے اس کو پنجابی میں انھا جپھہ کہتے ہیں۔پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔ کہنے لگا سیاست دان ہیں۔ابھی چینل پر ملک کی صورت حال پر پروگرام ریکارڈ ہو رہا تھا۔اب ریکارڈنگ ختم ہو گئی ہے۔اب کل دوبارہ اسی وقت ریکارڈنگ ہو گی اور ایک دوسرے پر آگ گولہ پھینکتے ہوئے یہ لوگ آگ بگولہ ہوں گے۔ ایک جگہ بہت خموشی تھی لوگ انگریزی لباس میں ملبوس تھے۔ان کی ٹائیاں اور میچنگ شوز لش پش کر رہے تھے۔ان کی میزوں پر پائپ اور سگار پڑے تھے۔ اچانک ایک قدیم مسلم سلاطین اور امرا کے لباس میں ملبوس ایک مدقوق شخص نمودار ہوتا اور کورنش بجا لاتا۔کاغذات ان لوگوں کے سامنے رکھتا اور واپس چلا جاتا۔ایک اور اس سے بھی کمزور صحت والا اندر آتا اور پائپ میں تمباکو بھرتا۔اگلی میز پر جا کر ماچس سے آدمی کا سگار سلگاتا۔اچانک میری نظر ان لوگوں کے پیچھے پردے پر پڑی۔غور سے دیکھا تو بھاری سیاہ پردوں کے پیچھے ایک اور آدمی بیٹھا تھا۔ وہ مدقوق آدمی پردہ اٹھا کر اندر گیا تو معلوم پڑا کہ مدقوق شخص کی ڈیوٹی ہے کہ وہ تقریبا نظر نہ آنے والے اندر بیٹھے آدمی کا سگار اٹھا کر اس کے ہونٹوں کے قریب لائے۔اب اس آدمی کی مرضی ہے کہ وہ ہونٹ کھولے یا نہ کھولے۔جب تک وہ ہونٹ نہیں کھولے گا مدقوق شخص اس کا سگار لے کر اس کے سامنے کھڑا رہے گا۔پوچھنے پر معلوم ہوا یہ افسران بالا ہیں۔ان کو لکی پاکستانی سرکس کے شو کی جان کہا جاتا ہے۔حرف عام میں ان کو اعلیٰ افسران کہتے ہیں۔یہ لوگ خاموش رہتے ہیں اور سارے کام خاموشی سے کرتے ہیں اور کھاتے بھی خاموشی سے ہیں خواہ کھانا ہو خواہ ملک۔ ایک خیمے میں شور کی آوازیں سنائی دیں، ادھر لپکا تو سب کے منہ سوجے ہوئے تھے۔پوچھا تو معلوم ہوا کہ سرکاری مشاعرہ تھا، ان تمام شعرا کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔مزید معلوم ہوا کہ ان پر تہمت ہے کہ یہ چور شاعر ہیں۔پوچھا وہ کیسے معلوم ہوا کہ جیسے پنجاب کی پولیس اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہے یہ تمام شعرا باجماعت کسی دوسرے شاعر کا شعر اڑا لیتے ہیں۔اب ان کو اس جگہ بند کر دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اپنا اپنا شعر سناؤ۔ایک شعر سنانے لگتا ہے تو دس آوازیں آتی ہیں۔چور اوئے چور۔یہ میرا شعر ہے دوسرا کہتا ہے بکواس بند کر میرا ہے۔شعر سنانے والا کہتا ہے میرا بھی تو ہے۔ان کے بیچ میں ایک خاموش بوڑھا آدمی بیٹھا تھا، اس سے دریافت کیا کہ آپ کی خاموشی کا کیا راز ہے۔ لگتا ہے آپ نے بدھا کی طرح گیان کی منزل حاصل کر لی ہے۔انہوں نے آنکھ ماری۔سیاح نے سوچا یہ تو بہت چالاک بوڑھا ہے۔حقیقت حال معلوم ہوئی کہ سارے شعرا مفت میں شور مچا رہے ہیں۔ ان سب کو یہی خاموش بابا جی کلام لکھ کر دیتے ہیں۔اب دوبارہ مشاعرہ آنے والا ہے، اس باباجی نے کہا ہے اپنا اپنا شعر سناؤ۔جو سناتا جائے گا، اس کو ایک غزل مشاعرے کے لیے اور ایک غزل بطور تحفہ عطا کی جائے گی۔اب سارے شعرا شور مچا رہے ہیں بابا خاموش خود چور شاعر ہے۔چور چور کے نعرے سن کر پنجاب پولیس نے ریڈ کر دیا۔ بابا جی کو گرفتار کرنے کی مخبری ہے۔ ایک خیمے میں لوگ لہو لہان تھے اور ایک دوسرے کو بے نطق سنا رہے تھے۔اصل میں تو وہ ایک دوسرے کو مادر زاد گالیاں دے رہے تھے مگر مجھے بتایا گیا کہ حکم کوتوال ہے کہ گالیوں کا لفظ ممنوع ہے، اس کی جگہ آپ بے نطق سنانے کا محاورہ استعمال کر سکتے ہیں۔پوچھنے پر معلوم ہوا یہ دو سیاسی جماعتوں کے کارکن ہیں۔ان کا یہی کام ہے کہ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک ایک دوسرے کے کھنے سینکنے ہیں۔ سرکس کے باقی شو شام کو ختم ہو جاتے ہیں مگر ایک یہی شو ہے جو چوبیس گھنٹے چلتا رہتا ہے۔