شرقاً غرباً لیٹی ہوئی ایک سڑک ہے جو شہر کے قدیمی بوہڑ دروازے کی قدموں سے پھوٹتی ہے اور چھائونی کی طرف نکل جاتی ہے۔ اسی سڑک پر ایک بچے کھچے مگر تیزی سے اجڑتے سینما گھر کے سامنے وہ وسیع عمارت ہے، ایک مستطیل جو اپنے طول میں سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی ہے۔ جنوبی ضلع پر تعمیرات میں جبکہ شمالی جانب بڑا سبزہ زار ہے۔ عمارت میں بہت سے کمرے ہیں اور کچھ چھوٹے بڑے ہال۔ عمارت کے ماتھے پر بیچوں بیچ ایک مرکزی ہال ہے جس میں بہت سے کائونٹر ہیں ۔ بائیسواں روزہ ہے، میرا تخیل داخلی دروازہ پار کرتا ہے تو سبزہ زارکے بعد دائیں ہاتھ کو بنے سائیکل سٹینڈ سے رونق اور چہل پہل شروع ہو جاتی ہے۔ پارکنگ میں موٹر سائیکل کھڑا کر کے ٹوکن لے کر دفاتر کے سامنے برآمدے میں چلتا ہوا اس مرکزی ہال کو جاتا ہوں۔ ہال میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے اور کائونٹروں کے آگے قطاریں لگی ہیں، کوئی کائونٹر والے کی سست رفتاری پر بڑبڑا رہا ہے تو کوئی قطار کی پاسداری نہ کر کے کائونٹر تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے کو گھرکیاں دے رہا ہے۔ عام دنوں میں ایک ہی کائونٹر ٹکٹ فروخت کرتا ہے لیکن رمضان میں چونکہ عیدکارڈوں کا رش ہوتا ہے سو عوام کی سہولت کے لئے تین کائونٹر کر دیئے گئے ہیں۔ تینوں سے لوگ دھڑا دھڑڈاک ٹکٹ خرید رہے ہیں۔ وہ سامنے دوکائونٹر رجسٹری کر رہے ہیں۔ ٹکٹ خرید کر لوگوں نے عید کارڈوں کے لفافوں پر چسپاں کئے۔ پھر جو عام ڈاک سے بھیجنا چاہتے ہیں وہ تو ہال سے باہر لگے تین لیٹر بکسوں میں ٹھونس دیتے ہیں۔ کچھ فاضل پیسے خرچ کے رجسٹری کروارہے ہیں۔ کچھ لفافوں میں خط اور پھول بھی رکھے گئے ہیں جن سے وزن بڑھ گیا ہے اور کائونٹر کلرک کہہ رہاہے کہ اتنی ٹکٹ مزید لگے گی۔ میں اپنے کارڈ رشید آباد والے ڈاک خانے سے پوسٹ کیا کرتا ہوں لیکن کارڈچونکہ بہت پوسٹ ہو رہے ہیں اس لئے وہاں ٹکٹ ختم ہو گئے ہیں تو مجھے یہاں جنرل پوسٹ آفس آنا پڑا۔ لفافے میں گھر سے بند کر کے لایا تھا۔ ٹکٹ خرید کے میں نے زبان سے نمی لے لے کر ان کی پشت گیلی کی ہے اور لفافوں پر چپکاتا چلا جا رہا ہوں۔ یہ کام میں ہال سے باہر آکر اس لئے کر رہا ہوں کہ گوند زبان پر لگ جاتی ہے اور چونکہ روزہ ہے تو مجھے بار بار تھوک کر زبان صاف کرنا پڑتی ہے۔ اس کے باوجود ٹکٹ چسپاں کرنے کا کام ختم کرتے کرتے زبان کی نوک پر ایک تہہ سی جم گئی ہے جس نے زبان کو اکڑا کر لکڑی بنا دیا ہے۔ میں اٹھنے لگتا ہوں تو ایک بزرگ آجاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک بند لفافہ ہے اور ہاتھ میں پرچی۔ وہ مجھے پرچی اور کارڈ کا لفافہ پکڑا کر کہتے ہیں ’’بیٹا! اس پر یہ پتہ لکھ دو‘‘۔ وہ اپنے کسی عزیز کو یا شاید بیرون ملک مقیم بیٹے کو کارڈ پوسٹ کرنے آئے ہیں۔ لکھنا نہیں جانتے۔ اب میں لیٹر بکسوں کی طرف آتا ہوں۔ تین بڑے دھانے والے لیٹر بکس پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔ ایک پر لکھا ہے ’’اندرون ملک‘‘ دوسرے پر ’’بیرون ملک‘‘ تیسرے پر شاید ’’لوکل یا اندرون شہر‘‘ لکھا ہے۔ میرے پاس زیادہ کارڈ بیرون شہر کے ہیں۔ کارڈ ڈال کر لیٹر باکس کے دھانے پر لگے چھجے کے نیچے سے ہاتھ پھیر کر تسلی کرتا ہوں کہ کارڈ کہیں دھانے میں تو پھنسے نہیں رہ گئے۔ کہیںدور سے آواز آتی ہے’’یہ لیں لفافے‘‘ میں ہڑبڑا کر واپس اکیسیوں صدی کے تیئسویں برس میں لوٹ آتا ہوں۔ میں اسی بڑے ہال میں کھڑا ہوں ، چہار سو ویرانی ہے۔ کائونٹر خالی پڑے ہیں، صرف دو تین کے پیچھے اہل کاروں کے اکتاہٹ بھرے چہرے نظر آتے ہیں۔ ابھی میں مفت والے پانچ کارڈ لے کر اس کائونٹر پر ڈاک کے لفافے لینے آیاتھااور سو روپے دے کر پانچ لفافے مانگے تھے۔ تخیل وقت کی قید سے آزاد ہوتا ہے، بس پیسے دینے اور لفافے لینے کے وقفے میں میرے تخیل نے یہ سارے منظر دیکھ لئے۔ میں نے ہال میں نصب کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر کارڈ لکھے۔ ایک بیگم اور بیٹیوں کے نام، باقی شاکر حسین شاکر ، مرزا یاسین بیگ ، علی حسین بلوچ اور سید طارق مشہدی کے نام۔ یہ وہ احباب ہیں جن کے پتے مجھے یاد تھے۔ لفافے بند کرتے ہوئے زبان کو پھر سے لکڑی کیا۔ ادھر ادھر دیکھا کوئی نہ تھا جسے پتہ لکھنے کو میری مدد درکار ہو۔ باہر نکل کر دو لفافے مقامی ڈاک والے لیٹر بکس میں اور باقی تینوں بیرون شہر والے میں ڈالے۔ مجھے دھانے میں ہاتھ ڈال کر چیک نہیں کرنا پڑا اس لئے کہ لیٹر باکسوں کے خالی شکم میں گرتے لفافوں کی آواز میں نے سن لی تھی۔ ملتان کے جی پی او میں ہمارے ایک دوست ہوتے ہیں شاہد یوسف۔ ان کا اگلے روز فون آیا کہ عید کارڈ کی دم توڑ چکی روایت کو زندہ کرنے کی ایک کوشش کے طور پر محکمہ ڈاک ملتان نے شہر کے بڑے ڈاک خانوں میں مفت عید کارڈ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ صرف ڈاک خرچ ادا کرنا پڑے گا کہ ڈاک خرچ مفت کرنا مقامی دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔ اس ذیل میں ایک چھوٹی سی افتتاحی تقریب ہے،آپ ضرور آئیے گا۔ بائیسویں روزے صبح ساڑھے نو بجے پہنچا تو پوسٹ ماسٹر جنرل جنوبی پنجاب ذوالفقار حسنین، چیف پوسٹ ماسٹر ملتان فائزہ خالد رائو، ڈائریکٹر پوسٹل ٹریننگ کالج عائشہ نیراور پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی بھی موجود تھے۔ افتتاح کے بعد عید کارڈوں کے حوالے سے ذوالفقار حسنین اپنی یادیں شیئر کر رہے تھے اورمیں سوچ رہا تھا کہ یہ کاوش بلاشبہ قابل صد تحسین ہے مگر کیا سکرین کے رسیا لوگ عیدکارڈ کی اس روایت کو رجوع کر پائیں گے؟ وہ زمانہ ایک پور ا کلچر تھا، تہذیب تھی جو عنقا ہو گئی۔ اب نیا زمانہ ہے اور نئے لوازمات۔ خیر! کوشش اچھی ہے: لوگ کہتے تھے عید کارڈ اسے یہ روایت تھی اک زمانے کی ایک داستان تھی ان کے ذہنوں پر جن کو عادت تھی بھول جانے کی