سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی بنام ریاست کیس فیصلے کی غلط رپورٹنگ پر وضاحت جاری کی ہے، اس معاملے پر بحث جاری ہے، آخر دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن یہ بھی دیکھئے کہ وضاحت کے معاملات کیوں پیش آتے ہیں؟ کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت چٹھہ کا بھی دوسرا بیان سامنے آیا ہے کہ بقول الیکشن کمیشن الیکشن دھاندلی کے الزامات لگانے والے سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے بیان ریکارڈ کروا دیا ہے، جس میں انہوں نے اپنے بیانات پر قوم سے معافی مانگی ہے اور ندامت کا اظہار کیا ہے۔لیاقت چٹھہ جیسے شخص کو قوم معاف کرے نہ کرے مگر آئین و قانون میں اسے معاف نہیں کرنا چاہئے اور لیاقت چٹھہ کی پہلی کانفرنس کی بھی باقاعدہ انکوائری ہونی چاہئے اور معافی والے بیان کی بھی۔ ان پڑھ قانون شکن کو چھوڑیئے اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی آئین و قانون کا مذاق اڑایں تو ان کو کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہئے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے عام انتخابات کو ڈھونگ اور فراڈ قرار دیتے ہوئے چیف الیکشن کمیشن سے فوری مستعفی ہونے اور قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے غیر جانبداری سے اپنے فرائض سر انجام نہیں دیئے۔ اسٹیبشلمنٹ نے بھی غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر عوامی مینڈیٹ کو رات و رات ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں تبدیل کیا گیا۔ اصل تحقیق اس بات کی ہونی چاہئے کہ پہلا بیان درست تھا یا دوسرا؟ یہ بھی دیکھئے کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ راولپنڈی ڈویژن کے تمام ڈی آر اوز اور آ راوز نے سابق کمشنر کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کر دیا ہے لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، الیکشن کے حوالے سے صرف لیاقت علی چٹھہ کے بیان پر الیکشن داغدار نہیں ہوابلکہ بہت سے دیگر الزامات بھی ہیں جن کا الیکشن کمیشن پر جواب دینا بنتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے راولپنڈی ڈویژن کے تمام 6 ڈی آر اوز کے تحریری بیانات ریکارڈ کیے۔سوال یہ ہے کہ جو پہلی کانفرنس ہوئی کیا اس سے تمام الزامات صاف ہو گئے؟ ایسا ہرگز نہیں ۔ تمام معاملہ کی تحقیقات ہونی چاہئے اور پورے الیکشن پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے، الیکشن کمیشن کی طرف سے اب یہ بیانات جاری کرائے جا رہے ہیں کہ لیاقت چٹھہ نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا ہے، معافی مانگی ہے اور ملبہ ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی پر ڈالا ہے ۔لیاقت چٹھہ نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھ سے خودکشی اور پھانسی جیسے جذباتی کلمات ادا کرائے گئے، میں معافی چاہتا ہوں، باردیگر کہوں گا کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، آئین، قانون اور پاکستانی قوم کی طرف سے کوئی معافی نہیں ہے، الیکشن کے تمام معاملہ کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ اس پر قوم کا بہت وقت اور وسائل خرچ ہوئے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے الیکشن کمیشن اور سرکاری افسروں کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے پر جے آئی ٹی بنانے کی منظوری دی، نوٹیفکیشن کے مطابق پانچ ارکان پر مشتمل کمیٹی جعلی بیلٹ پیپر چھاپنے کے حوالے سے پروپیگنڈہ میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی، اس کمیٹی کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ کیا واقعی جعلی بیلٹ پیپر چھپے ہیں؟ اگر چھپے ہیں تو اس پر بھی کارروائی ہونی چاہئے، بیلٹ پیپر چھاپنے اور چھپوانے والوں کو قانون کے حوالے کرنا چاہئے، یہ بھی دیکھئے کہ جہاں الیکشن کمیشن اور اسٹیبشلمنٹ پر دھاندلیوں کے الزامات ہیں وہاں سیاسی جماعتوں نے بھی میرٹ اور انصاف کی دھجیاں اڑائی ہوئی ہیں۔ (ن) لیگ وسیب سے ہمیشہ امتیازی سلوک کرتی آرہی ہے، 2018ء کے الیکشن میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے تحریک انصاف نے بھی وسیب سے بے انصافی کی اب نئی صورتحال کے مطابق الیکشن کمیشن نے خواتین کی 42 مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا، وسیب کے حصہ میں صرف تین نشستیں آئیں، راجن پور سے شازیہ عابد پی پی پی، عشرت اشرف رحیم یار خان مسلم لیگ (ن)، خانیوال سے سلمہ سعید مسلم لیگ (ق) شامل ہیں باقی وسیب کے کسی ضلع سے کوئی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا، صرف لاہور سے 18 سے زائد خواتین مخصوص نشستوں پر پنجاب اسمبلی کی ممبر بن گئیں ہیں ، مسلم لیگ (ن) کے حصہ میں 36 پیپلزپارٹی کو تین مسلم لیگ (ق) کو دو اور استحکام پارٹی کو ایک نشست مل گئی تحریک انصاف کا فیصلہ ہونا باقی ہے، دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے اور وہ وسیب سے کیا سلوک کرتی ہے؟ 21 فروری ماں بولی کے عالمی دن کے موقع پر گزشتہ روز دھریجہ نگر میں خواتین کا کنونشن تھا اس موقع پر خواتین کی مخصوص نشستوں میں وسیب کو نظر انداز کرنے کی مذمت کی اور کہا کہ ووٹ لینے کیلئے سب وسیب میں آجاتے ہیں مگر جب مراعات کا معاملہ ہوتا ہے تو سب کچھ وسیب سے باہر دے دیا جاتا ہے، خواتین کا کہنا تھا کہ وسیب کو صرف اُس کا حق چاہئے، ووٹوں کی بنیاد پر جتنی سیٹیں وسیب میں بنتی ہیں، ہر جماعت اُس کے مطابق وسیب کو اُس کا حق دے، خواتین نے ایک قرارداد کے ذریعے کہا کہ (ن) لیگ کو نصف سیٹیں وسیب میں دینی چاہئیں۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ اسمبلیوں میں جانے والی خواتین کو خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنی چاہئے کہ خواتین کی آبادی 52 فیصد ہے، اس بناء پر اسمبلیوں میں نمائندگی اور تمام محکمہ جات میں ملازمتوں سمیت نصف سے زائد حق خواتین کا ہے، ملک کی ترقی کا دارومدار اس پر منحصر ہے کہ نصف آبادی کو عضو معطل نہ بنایا جائے، ایک اور قرارداد میں پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے اور ابتدائی تعلیم ماں بولی میں دینے کا مطالبہ کیا گیا، مقررین نے بجا اور درست کہا کہ جس طرح ماں کا درجہ ہے، اسی طرح ماں بولی اور ماں دھرتی بھی مقدس ہے کہ انسان کی تین مائیں ہیں اور تینوں کا احترام لازم ہے۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ اُن قوموں کو ماں بولی کا دن منانے کا حق نہیں جن کے باعث 21 فروری 1952ء کی ملامت پاکستان کے حصے میں آئی، اس موقع پر مقررین نے یہ بھی کہا کہ بھارت دشمن ملک ہے، گنگا جمنا کی تہذیب کو مسلط کرنے کی بجائے پاکستان کی زبانوں اور پاکستان کے مختلف خطوں کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کو پروموٹ کرنا لازم ہے۔