تاریخ کیوں لکھی جاتی ہے؟تاریخ سے استدلال لے کر ماضی میں دیکھا جاتا ہے۔ہم نے کیا کھویا؟ہم نے کیا پایا۔ہم مسلمان ہیں۔ہم پاکستانی ہیں۔مگر ڈاکٹرز،انجینئرز اور کمپیوٹر انجینئرز بھی اور یہاں تک کہ بیوروکریٹس کو بھی ماضی کی تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ہماری دلچسپیاں اور فوکس کس پر ہے؟رئیل اسٹیٹ۔۔گھر کہاں بنایا جائے؟کونسی بستی محفوظ ہے اور کونسی غیر محفوظ؟ کھانا کون سے ہوٹل میں کھایا جائے؟ بوتیک اور برینڈ کونسا زیادہ"اِن "ہے؟ایم ایم عالم روڈ پر کون سے سپاٹ پر کونسا سیاستدان،جرنلسٹ یا بیوروکریٹ کھانا کھاتا ہے؟کس جرنلسٹ کو ضرورتمند اپنی حاجت روائی کے لیے کس ریسٹورنٹ کے کون سے ٹیبل پر مل سکتے ہیں؟آپ کسی چمکیلی۔۔سنہری ،روپہلی دعوتِ عام یا دعوتِ خاص میں چلے جائیں۔سیاست دان،صنعتکار،بیوروکریسی اور وہ جو ہر درد کی دوا ہیں ،کیسی گفتگو فرما رہے ہوں گے؟ یہاں ایک اور کلاس بھی ملے گی۔۔رئیل اسٹیٹ کلاس۔ان کے چہرے،باڈی لینگویج۔۔اندازِ گفتگو کیا کہتا ہے؟"ہم ہیں ناں"۔جی یہ مسٹر ایکس ہیں۔تو کیا کیا جائے؟جی آپ ان کی فضیلت سے واقف نہیں۔جی؟یہ وہی ہیں ناں۔۔جنہوں نے فلاں ہائوسنگ اسکیم کاٹی ہے۔مسٹر ایکس آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر۔۔کچھ مسکرائیں گے،کچھ ہائی روف گاڑی کی چابی کو آپ کے سامنے لہرائیں گے۔پھر آپ کو بتائیں گے کہ میرے پاس اتنی لینڈ کروزرز ہیں اور میں فلاں سوسائٹی میں۔۔اتنے کنال میں رہتا ہوں۔ان کی متبرک شخصیت اتنی "دلکش "اور" سحر انگیز" ہوتی ہے کہ حیرت انگیز طور پر طاقت اور دانش ان کے ارد گرد ہی ملے گی۔کسی نے کہا ۔۔آپ کی سوسائٹی تو شاید لاہور سے باہر ہے۔ جواب اُن کا آیا۔۔۔سر جی آپ پھرا ، ٹُرا کریں۔ شرق پور شریف بھی لاہور ہے،قصور بھی،رائیونڈ بھی۔سر جی ،آپ سمجھتے نہیں۔ہر طرف لاہورہی لاہور ہے۔ اس نئی طرح کی کلاس اور اُس کی بیگمات؟آپ جہازی سائز کے جیولرز کے بل بورڈ شہر کی ہر بڑی شاہراہ پر دیکھ سکتے ہیں۔فوڈ Chainsکے لذیز اشتہارات ،پھر اُن میں ہر سائز کا برگر اور ڈیل خوشحال پاکستان کی علامت ہیں۔ہم سب مغرب سے متاثر ہیں۔ہم سب ایک دوسرے کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس فوڈ پوائنٹ کی برانچیں فلاں ملک میں بہت پاپولر ہیں۔چلیں ہم بھی کھانا کھانے؟کیاہم ذہنی طور پر پسماندہ ہیں نہ ہی مغرب کے گلیمرسے مرعوب؟کسی بھی سماج کے ذہنی زاویے دیکھنے ہوں،اُس کی پسماندگی کو جاننا ہو۔۔اُس کیElite Classکا جائزہ لینا ہو گا۔حکومت چلانے والوں کی دلچسپیاں،موضوعاتِ گفتگو اور ترجیحات کو سُن لیں،پرکھ لیں اور جان لیں۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا،اگر آپ اس برانڈڈ رش کا حصہ نہ بنیں تو۔۔ورنہ۔بہت پرانی بات ہے۔ایک روزنامے کے ساتھ کام کرتا تھا۔ایک دن چاند رات پر صوبے کی اہم شخصیت کی جانب سے کہا گیا کہ کل عید پر تشریف لائیں۔اگلے دن ایک دوست جرنلسٹ کے ساتھ ہم بھی مہمانوں کا حصہ تھے۔ اہم شخصیت کا سٹاف افسر ایک ادارے سے تھا۔مجھ سے عید ملتے ہوئے اس نے ایک عجیب حرکت کر کے مجھے حیران کر دیا۔اُس نے عید ملنے کے دوران ہی میرے کوٹ کا کالر اُلٹ دیا اور برینڈ کا نام پڑھنے لگا۔۔کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ۔میرے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ صاحب کیا دیکھ رہے ہیں،کوٹ کے کالر پر۔شاید وہ برینڈ کے معاملے پر شدید حساس ہوں گے۔وہ آجکل بھی کسی اونچی جگہ پر بیٹھ کر عوام کے ذہن اور قلب کوتشکیل دیتے ہیں۔ بات احساس میں جم کر رہ گئی ۔۔پھر رہ رہ کر یہ خیال آتا رہا کہ ہم کہاں کے سچے ہیں؟ نوجوان نسل تو چلو انٹر نیٹ کو پیاری ہوگئی۔اس کے کچے پکے نظامِ تعلیم نے اُسے بھٹکا دیا۔مگر پرانی نسل۔۔زیادہ پرانی نہیں،اس سے تو پوچھاجا سکتا ہے۔بھٹکا ہو راہی میں۔۔بھٹکا ہوا راہی تو۔۔منزل ہے کہاں تیری؟اے لالۂ صحرائی۔مگر یہ تو اقبال کے دور کی بات ہے۔مگر اب سوال ، نصیحت اور لیکچر ختم ہو گئے ۔آپ فیس بُک پر چلے جائیں۔ہر بوڑھا ،جوان۔۔خواتین وحضرات۔ سچے مسلمان ہیں،باکمال دانشور ہیں۔ انسانیت کے پتلے ہیں۔باہر اوراندر کے شخصی حُسن سے مالا مال۔مگر باہر سوسائٹی میں آ جائیں۔اتنے بدصورت رویے کہ ؟ آپ کا حُسن جو دیکھا تو خُدا یا دآیا۔ اللہ انہیں ہدایت دے جنہوں نے ہمارے95%کو تشویش اورعدمِ تحفظ میں مبتلاکر رکھا ہے۔عدمِ تحفظ سے معاشی تحفظ کی میراتھن ریس ہے۔آپ کون ہیں؟جی پروفیسر۔آپ کون ہیں؟جی ماہرِ تعلیم۔آپ کی تعریف؟جی میں ایک مقامی کالج میں پرنسپل ہوں۔اور آپ؟ جی میں ایک مسجد میں امام ہوں،جمعہ کا خطبہ میں ہی دیتا ہوں۔اور آپ کی تعریف؟جی سکول ٹیچر۔۔حکومت بڑے بڑے افسر بھیجتی ہے ہمارے سکولوں میں جب ہوتا ہے،سلام ٹیچر ڈے۔افسر اور ہیڈ ماسٹر سٹیج پر بیٹھے ہوتے ہیں اور ہم ؟بغیر ٹینٹ کے دھوپ کی شدت میں اپنے پیشے کو سلام کرتے ہیں۔چند دن پہلے بیٹے کے سکول جانے کا موقع ملا۔لاہور کے مشہور برینڈ کا انگلش میڈیم سکول۔پرنسپل صاحبہ کے فیشن ایبل روم میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔جی میرا بیٹا کہتاہے کہ آپ کے ٹیچرز۔۔۔کلاس میں طالب علموں کے سامنے بہت بے بس اور مؤدب نظر آتے ہیں۔غازہ اور میک اپ میں لتھڑی ہوئی چالاک پرنسپل جو انگریزی میں اردو یا اردو میں انگریزی بار بار مکس کر رہی تھی۔۔جدید کٹنگ کے گولڈن بالو ںکو ماتھے سے ہٹاتے ہوئے"جی ایسی تو کوئی بات نہیں۔ہمارا تو بنیادی اصول ہے۔"Enter to Learn and Leave to Serve۔ میںنے پھر کہا۔۔ سُنا ہے آپ کے سکول میں فلاں برادری کے نو دولتیے سیاسی لوگوں کے بگڑے ہوئے بچوں کا مافیا۔۔دیگر بچوں کو Bullyکرتا ہے؟"جی نہیں یہ دشمنوں کا پھیلایا ہوا پروپوگنڈا ہے"۔اگر اُس نے برانڈڈ کپڑے نہ پہنے ہوتے اور ویسٹرن میک اپ اور کٹنگ سے آراستہ نہ ہوتی توشایدکہہ دیتی۔جی یہ یہود ، ہنود اور اغیار کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔میں سوچتا رہا کہ اگر ہم تاریخ کی زمین کھود کر اپنے پائوں تلاش کر لیتے تو شاید وقت ہمیں اپناسر اور گردن سیدھی رکھنے کا موقع دے دیتا!