میرے سامنے اس وقت پاکستان کے دفتر خارجہ کے دو اہم بیانات پڑے ہوئے ہیں۔ ان دونوں بیانات کے درمیان پانچ ماہ کا وقفہ ہے۔ لیکن اس وقفے کے دوران ہماری حرکات اور آخری بیان یہ سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ امریکی غلامی میں گُندھے ہوئے ہمارے پالیسی ساز ادارے اور فیصلہ ساز قوتوں نے اس بے بس و مجبور اور عالمی حالات سے عمومی طور پر لاعلم قوم کو ایک بار پھر امریکی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر ایک ایسی جنگ کے میدان میں اُتار دیا ہے جس کا نتیجہ رُسوائی اور بدنامی کے سوا شاید کچھ بھی نہ ہو۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ ہمارے اقتدار پر قابض کچھ ’’لاڈلے‘‘ امریکیوں کی نظروں میں مزید ’’لاڈلے‘‘ ہو جائیں۔ پہلا بیان تصاویر کے ساتھ ہے جن میں دکھلایا گیا ہے کہ انسانی ہمدردی کیلئے حکومتِ پاکستان کی یوکرین کیلئے امداد کی دوسری کھیپ پولینڈ پہنچ گئی ہے اور جہاں اسے پاکستان کے سفیر ملک محمد فاروق، دفاعی اتاشی بریگیڈیئر قاسم شہزاد اور یوکرین کی افواج کے کرنل ڈمالی سن چینکو اور لیفٹیننٹ کرنل آندری آنسوو نے وصول کیا ہے۔ پاکستان کے اس C-130 طیارے میں 7.5 ٹن سامان لدا ہوا تھا اور یہ کارگو 4 جون 2022ء کو وہاں پہنچی۔ انسانی ہمدردی کے نام پر امریکیوں کو خوش کرنے کے اس عمل کے ٹھیک پانچ ماہ بعد 2 نومبر 2022ء کو پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے روس کی حکومت سے اس بات کا جواب طلب کیا ہے کہ ان کے سینیٹر مورزو (Morzov) نے ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ الزام کیوں لگایا ہے کہ یوکرین پاکستان کی مدد سے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے جنہیں عرفِ عام میں ’’ڈرٹی بم‘‘ کہا جاتا ہے۔ روس کے اس سینیٹر کی یہ پریس کانفرنس گذشتہ دو دنوں سے اخبارات اور میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ یہ شخص ایگور مورزو (Igor Morzov) ایک عام سا سینیٹر نہیں بلکہ روس کی ڈیفنس کمیٹی کا ممبر بھی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں اس نے یوکرین کے حوالے سے دستاویزات کا ایک مجموعہ (Dossier) پیش کیا جس میں ایک دستاویز کا عنوان تھا ’’یوکرین میں ایٹمی اشتعال انگیزی کس کی ضرورت ہے؟‘‘ (Nuclear Provocations in Ukraine who; needs it)۔ مورزو نے کہا کہ یوکرین کی ڈرٹی بم بنانے کی اہلیت اب کوئی راز نہیں ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس وقت یوکرین کے پاس سرمائے کی کمی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کے پاس جو "Tochk-U munition" میزائل سسٹم ہے وہ ایسے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کیلئے انتہائی کارگر ہے اور امریکی صدر کو امریکی قوانین کے مطابق یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سینیٹ اور کانگریس کی منظوری کے بغیر کہیں بھی ایٹمی ہتھیار گرا سکتا ہے یا کسی دوسرے ملک سے گروا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ الزام بھی لگایا کہ پاکستان کے شہر اسلام آباد میں ایک اسلحے کا تاجر میسرز ڈی ایم آئی (DMI) ایسوسی ایٹس بلغاریہ کی ایک اسلحہ ساز کمپنی ’’ڈیفنس انڈسٹری گروپ‘‘ سے مسلسل رابطے میں ہے، جہاں سے وہ اسلحہ خرید کر یوکرین کو بھیجتا ہے۔ اسی طرح یوکرین کی ایک کمپنی میسرز فارمیگ (Formag) نے پاکستان کی ایک کارگو کمپنی بلیو لائن سے معاہدہ کیا ہے جو پاکستان سے دستانے یوکرین کی فوج کیلئے سپلائی کر رہی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے روسی حکومت سے یہ وضاحت طلب کر کے پاکستان کو اس الزام سے بچانے کی کوشش کی جو روسی سینٹر کے بیان سے سنگین صورتحال پیدا کر سکتا تھا‘ ایک ذمہ دار ملک کے طور پر پاکستان ہرگز ایسے کسی الزام کو قبول نہیں کرسکتا جو اس کے قومی وقار اور سلامتی کے منافی ہو مگر اتنا کافی نہیں۔ پاکستان یوکرین کی آزادی یعنی 1996ء سے اس کے ساتھ اسلحہ اور دیگر مصنوعات کی تجارت کر رہا ہے۔ اس پچیس سالہ تجارت میں یوکرین کے ٹینک اور پُرزہ جات ہماری اہم برآمدات میں سے ہیں۔ پاکستان اپنی غذائی ضروریات میں سے جتنی بھی گندم منگواتا تھا اس کا چالیس فیصد یوکرین سے آتا تھا۔ گذشتہ سال یعنی 2021ء میں ہم نے یوکرین سے 477.8 ملین ڈالر کی گندم منگوائی، اس کے علاوہ بیج، پھل، خام لوہا اور سٹیل بھی درآمد کیا جبکہ پاکستان یوکرین کو کپاس، پٹ سن، اُون اور ریشم کے علاوہ پھل، خشک میوہ جات اور چاول وغیرہ برآمد کرتا رہا ہے۔ گزشتہ سال ہماری تجارت کا حجم 801.2 ملین یعنی 81 کروڑ ڈالر تھا۔ یہ سب کچھ حالتِ امن میں تھا لیکن شاید ہمارے منصوبہ سازوں اور کاروباری حضرات کو بالکل اندازہ نہیں کہ 24 فروری 2022ء کو دنیا یک دَم بدل گئی تھی۔ اس بات کا اندازہ اور احساس تو دنیا کے تقریباً ہر اس ملک کو بخوبی ہو چکا ہے جو اس یوکرین روس جنگ سے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر ہو سکتا ہے۔ یورپ کے تمام ممالک جو اس جنگ سے براہِ راست متاثر ہیں اور امریکی دفاعی گروپ نیٹو کے رکن ہیں، وہ بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ’’باآواز بلند‘‘ یہ کہے کہ چلو ویسے ہی یوکرین میں اپنی افواج داخل کرتے ہیں جیسے ہم نے افغانستان اور عراق میں فوجیں اُتاری تھیں اور یوکرین کے عوام کو روس کی بربریت سے نجات دلاتے ہیں۔ سب ممالک دبکے بیٹھے ہیں۔ اسلحہ دے رہے ہیں لیکن چوری چوری بذریعہ مشرقی یورپ۔ انسانی ہمدردی کیلئے انہوں نے یوکرینی عوام کیلئے اپنے بارڈر کھول تو دیئے ہیں، لیکن نہ انہوں نے روس سے اپنی گیس اور پٹرول کی تجارت ختم کی ہے اور نہ ہی وہ روس سے براہِ راست محاذ آرائی میں کودے ہیں۔ یہی حال افریقی ممالک کا ہے۔ ہر کسی نے بائیڈن کو صاف انکار کر دیا ہے کہ ہم روس سے گیس اور تیل کی تجارت کریں گے، کیونکہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ آپ پہلے اپنے اتحادی یورپی ممالک کو قائل کر کے دکھائو۔ سعودی عرب جس کی سرزمین پر لگا ہوا امریکی ڈیفنس سسٹم اگر امریکہ اُتار لے تو وہ بالکل بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب نے بھی امریکی صدر کو صاف صاف انکار کر دیا ہے کہ ہم تمہاری فرمائش پر تیل کی پیداوار زیادہ کر کے، روس کو نقصان تو پہنچا سکیں گے، لیکن اس طرح ہماری اپنی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ یہ ہیں وہ عالمی حالات اور دنیا بھر کے ممالک کا روّیہ کہ وہ کیسے اپنے حالات و واقعات کو دیکھ کر اس تیز ہوتی ہوئی یوکرین روس جنگ میں محتاط ہو چکے ہیں۔ لیکن شاید ہمیں گزشتہ چالیس سال سے ایک عادت سی ہو گئی ہے کہ اگر ہم امریکہ کی جنگ لڑیں گے تو پھر یقیناً ڈالر آئیں گے، ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، ہمیں اسلحہ ملے گا، ڈھیروں ڈالر امداد بھی مل جائے گی، تعلیمی وظائف اور ملازمتوں کے دروازے ہم پر کھلیں گے۔ یہی سب سوچ کر ہمارے ’’صاحبانِ اقتدار‘‘ اپنی سرزمین کو بارود کے دُھوئیں اور لہو کی سُرخی سے آلودہ کرتے رہتے ہیں۔