بھٹو کے خلاف چلنے والی طویل تحریک کے بعد جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آیا تو وہ پاکستان جمہوری اتحاد میں شامل نو عدد سیاسی پارٹیوں کے نزدیک نجات دہندہ تھا، مگر جماعت اسلامی کے لئے وہ جیسے اُمید کی کرن بن گیا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے جوشیلے کارکنان کی آنکھوں کا تارا۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کی صدارت اور جمعیت کی نظامتِ اعلیٰ ایک ہی فرد لیاقت بلوچ کے پاس تھیں۔ جیسے ہی چھ جولائی 1977ء کے بعد تعلیمی ادارے کھلے تو پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین نے جنرل ضیاء الحق کو فوراً مدعو کیا اور فیصل آڈیٹوریم اس کے عشاقان سے کھچا کھچ بھر گیا۔ ضیاء الحق سٹیج پر آیا تو جمعیت کے مشہور نعرے ’’انقلاب انقلاب: اسلامی انقلاب‘‘ سے پورا ہال گونج اُٹھا۔ اسلامی انقلاب کے متوالوں نے ضیاء الحق کو ہمہ تن گوش سنا اور دیوانہ وار نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ ملکی فضاء ایسی تھی جس میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن اپنے ہر مخالف کو ردّانقلاب سمجھتے ہوئے اس سے بالکل ویسی ہی شدید نفرت کرتے، جیسے آج ان میں عمران خان سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔ بھٹو کا نام ان کے سامنے لینا ان کے جذبات کو آگ لگانے کے مترادف تھا۔ انہی دنوں لٹریری سوسائٹی نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ جس میں خوبصورت شاعر اعزاز احمد آذر بھی مدعو تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ سٹیج پر شعر پڑھنے کے لئے آیا، تو جمعیت کے مشہور جذباتی کارکن راجہ منّور نے ایک طرف سے نعرہ بلند کیا، ’’یہ پیپلز پارٹی کا عہدیدار ہے‘‘، پھر کیا تھا، شاعری گئی بھاڑ میں، فوراً اسلامی انقلاب کے نعرے بلند ہونے لگے اور جب وہ رُسوا ہو کر سٹیج سے اُترا تو یونیورسٹی مجلّے ’’محور‘‘ کا مدیر، راشد متین اور میں جو لٹریری سوسائٹی کا صدر تھا، ہم دونوں شرمندہ سا چہرہ بنائے اس سے معذرت کر رہے تھے۔ یونیورسٹی کے اسی دور میں میری زندگی میں ایک واقعہ پیش آیا جس کی خجالت اور شرمندگی اب تک ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ 1978ء کے موسم گرما میں، پنجاب یونیورسٹی میں اساتذہ کے ایک گروپ نے ڈاکٹر اسرار صاحب کو تقریر کے لئے بلایا۔ ان کی اس تقریر کا اہتمام سٹوڈنٹس ٹیچر سنٹر (STC)کے کیفے ٹیریا کے سامنے والے برآمدے میں کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار صاحب اس وقت ہم جمعیت والوں کے لئے ایک ناقابلِ معافی مجرم تصور ہوتے تھے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھا رکھا تھا کہ انہوں نے ماچھی گوٹھ میں مولانا مودودیؒ سے اختلاف کر کے دراصل تحریک اسلامی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ہم میں ’’خبط ِ عظمت‘‘ بھرنے کے لئے سالانہ اجتماعات کے مقررین اور تربیت گاہوں کے مّربی حضرات فخر سے کہا کرتے تھے کہ وہ دیکھو، ڈاکٹر اسرار آج یک و تنہا ہے، اور جماعت اسلامی کا قافلہ کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتا اسلامی انقلاب کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر اسرار احمد کی اس یونیورسٹی میں آمد جس پر اسلامی جمعیت طلبہ کا غلبہ ہو، نوجوان کو اشتعال دلانے کے لئے کافی تھا۔ لیکن ہنگامہ آرائی کی بجائے ’’علمی انداز‘‘ سے ڈاکٹر اسرار صاحب کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یونیورسٹی میں جمعیت کے جتنے بھی میرے جیسے ’’منہ پھٹ‘‘ تھے جو اپنے تئیں خود کو ’’علامہ‘‘ سمجھتے تھے ان سب نے وہاں اہم نشستیں سنبھال لیں۔ ان ’’بزعم خود عالموں‘‘ میں، میں بھی شامل تھا اور میرے ساتھ سلیم منصور خالد، سید طاہر شہباز (سول سرونٹ جو وفاقی محتسب بنے) میرا جماعتیہ دوست جاوید اقبال رانا، خالد ہمایوں اور ایسے لاتعداد جمعیت کے کارکن وہاں موجود تھے۔ یوں سمجھئے ہم اپنے دور کے ’’بلاگر‘‘ اور میڈیا ایکسپرٹ تھے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب کی تقریر کا عنوان تھا ’’منہج رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ تقریر ختم ہونے کے فوراً بعد ہمارے تقریر نما سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ میرے سمیت ہر نوجوان نے پہلے ڈاکٹر صاحب کی حکمت عملی اور طریقِ کار کی غلطیوں کی نشاندہی کی پھر انہیں مشورہ دیا کہ آپ یہ روش ترک کر دیں، اس کے بعد اگر کسی کے ذہن میں کوئی سوال تھا تو اس نے کیا۔ اوّل تو ہم جذباتی نوجوانوں کے پاس کوئی سوال تھا ہی نہیں۔ ہم تو ڈاکٹر اسرار صاحب کے سامنے اپنی علمی قابلیت بھگارنے اور انہیں چاروں شانے چِت کرنے آئے تھے۔ آپ خود سوچیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد جو اس وقت صرف پینتیس سال کے تھے انہوں نے کس تحمل اور بردباری کے ساتھ ہماری خرافات کو سنا ہو گا۔ اگرچہ مسکراہٹ ان کا خاصا نہیں تھی، لیکن محسوس ہوتا تھا کہ وہ زیرِ لب مسکرا رہے ہیں۔ لاتعداد بپھرے ہوئے نوجوان جب سوالات کر کے تھک گئے تو ڈاکٹر صاحب نے اس فقرے سے آغاز کیا کہ ’’مجھے اپنی تقریر کے جواب میں اپنے دوستوں کی پُرمغز اور مدلل تقریروں نے بہت لطف دیا۔ ان میں لاتعداد سوالات ایسے ہیں جن پر میں آئندہ اپنے مطالعہ کے دوران غور کروں گا اور پھر کبھی ایسی ہی کسی تقریب میں آیا تو جواب دوں گا۔ غرور کا یہ عالم تھا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم نے اپنے تئیں بہت بڑا میدان مار لیا، لیکن اس واقعے کی شرمندگی اور ندامت آج تک اس قدر مجھے گھیرے رہتی ہے کہ جب بھی میں ڈاکٹر اسرار صاحب سے ملا، میرا سر ندامت سے جھکا رہا، کئی بار معذرت کی اور آج بھی وہاں جاتا ہوں تو وہ واقعہ مجھے اپنے اندر چھپی ہوئی خجالت میں لے جاتا ہے۔ آج اس واقعے کی ویسی ہی گونج میں نے چوالیس سال بعد اپنے گزشتہ دو کالموں کے جواب میں ایک بار پھر محسوس کی ہے۔ اپنے گزشتہ کالم پر جماعتِ اسلامی کے جوشیلوں کے جذباتی ردّعمل کے بعد مجھے شدت سے یہ یقین ہو گیا ہے کہ ان جماعت والوں میں یہ روّیہ عمران خان کے بے لگام سوشل میڈیا کارکنان کے ردّعمل سے ہر گز نہیں پیدا ہوا بلکہ کہیں نہ کہیں تربیت کا فقدان موجود ہے۔ ایسا روّیہ شروع دن سے ہی موجود تھا مگر اس کی طرف کسی نے کبھی نشاندہی نہیں کی اور آج یہ ایک ببول کا درخت بن چکا ہے۔ سراج الحق صاحب کے بیان کے حوالے سے جب میں نے ان کی حمایت میں کالم لکھنے کے آغاز میں ہی جماعت اسلامی کی میڈیا ٹیم اور سوشل میڈیا ’’جہادیوں‘‘ کے روّیوں کا ذکر کیا تو مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو ہم نے چوالیس سال پہلے ڈاکٹر اسرار صاحب کے ساتھ کیا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے پروانوں اور فرزانوں نے اپنے کمنٹس میں وہ سب کچھ سچ کر دکھایا جو میں نے لکھا تھا۔ صرف میری فیس بک اور ٹوئٹر پر کالموں کے نیچے الزامات بھرے کمنٹس پڑھ لیں تو میری بات پر یقین کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔ میری حیرت کے لئے کافی تھا کہ اس میں عام کارکنان نہیں بلکہ بڑے بڑے اہم لوگ بھی شامل تھے جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس میں خرابی دراصل جماعت ِ اسلامی کی نہیں بلکہ اس انتخابی جمہوری سیاست کی ہے کہ جس کے تحت اگر جماعت ِ اسلامی عمران خان کے ساتھ پانچ سال خیبر پختونخواہ کی حکومت میں ہوتی ہے اور ان کے امیر سراج الحق صاحب بحیثیت صوبائی وزیر پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کو جوابدہ ہوتے ہیں تو ان سب کو عمران خان میں کوئی برائی نظر نہیں آئی۔ لیکن اب چونکہ راہیں جدا ہیں اور کسی ایک کو ردّ انقلاب ثابت کرنا ہے تو پھر اس وقت عمران خان ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی میرے جیسا لکھاری عمران کے کسی فعل یا وقتی روّیے کی تعریف کر دے تو ان کے الزامات کی زد میں آ جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں فیڈرل شریعت کورٹ کے باہر جمعیت کے ایک شعلہ بیان نوجوان نے مجھے کہا۔ ہم پہلے آپ کو بہت دل سے پڑھتے تھے، لیکن جب سے آپ نے ’’عمران نیازی‘‘ کی تعریف شروع کی ہے ہم نے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اس سے صرف یہ کہا کہ ’’میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں جہاں بیس سال پہلے تھا، میں نے بیس سال امریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت کی تھی جبکہ لاتعداد مذہبی سیاسی لیڈر ڈانواں ڈول ہو گئے۔ آج بھی جو اس امریکہ کے مخالف ہو گا، میں اس کے اقدام کی تعریف کروں گا۔ آپ ایک جمہوری سیاست کرنے والے لوگ ہیں، آپ کا کیا بھروسہ آپ کل پھر عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیں تو کیا میں آپ کے ساتھ ساتھ بدلتا رہوں‘‘۔