پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے تینوں فارمیٹ کی کپتانی چھوڑ دی ہے۔حال ہی میں ہونے والے عالمی کرکٹ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکست کے بعد یہ بہت ضروری تھا۔جب کوئی شخص اپنا کام صحیح طرح انجام نہ دے سکے تو اس کے لئے بہتر ہوتا ہے کہ وہ مزید شرمندگی سمیٹنے اور اپنے منصب سے غیر ضروری جڑے رہنے کی بجائے کسی دوسرے بہتر شخص کے لئے جگہ چھوڑ دے۔ موجودہ عالمی کپ کے مقابلوں میں یہ بات کھل کر محسوس کی گئی ہے کہ ہمارے کھلاڑی ، ہمارے بڑے بیٹس مین جو چھوٹی ٹیموں کے مقابلے میں خود کو زبردست جانتے ہیں، بڑی ٹیموں کے مقابلے میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ بولر بھی اے کلاس بولنگ میں ناکام ہوئے۔ حیران تو اس بات پر ہیں کہ عبدالرزاق کے بعد ہم ابھی تک اتنے سالوں میں کوئی اچھا آل رائونڈر پیدا نہیں کر سکے۔ سیاست اور اقربا پروری بھی ایک دیمک کی طرح اس کھیل کو پوری طرح چاٹ رہی ہے۔اس سے نجات بھی بہت ضروری ہے ۔ اب شان مسعود اور شاہین شاہ آفریدی نے کرکٹ کے دو فارمیٹ میں بابر اعظم کی جگہ لے لی ہے۔ تیسرے فارمیٹ کے بارے فیصلے کا انتظار ہے۔کھلاڑیوں کا انتخاب بھی نئے سرے سے خالص میرٹ پر ہو ا تو امید ہے کہ یہ کھیل بہتری کی طرف گامزن ہو گا۔ کرکٹ ہمارا قومی کھیل تو نہیں لیکن اپنے قومی کھیل ہاکی کی نسبت ہم اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے باقی تمام کھیل مل کر بھی اتنی اہمیت نہیں پاتے جتنی کرکٹ کو حاصل ہے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ اب ایک چھوٹا ادارہ ہے جب کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہر لحاظ سے اس سے برتر ادارہ ہے۔پاکستان سپورٹس بورڈ کا سالانہ بجٹ نو (9) ارب روپے ہے جس سے اسے بہت سی کھیلوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ جب کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا بجٹ پندرہ (15) ارب روپے ہے اور یہ صرف اور صرف کرکٹ پر خرچ ہوتا ہے۔گو یہ رقم سرکاری خزانے سے حاصل نہیں ہوتی مگر اس بجٹ کی رقم کرکٹ سے متعلق یا بورڈ سے منسوب تمام حضرات اور کھلاڑیوں پر بے دریغ اور بہت فضول خرچ ہوتی ہے۔کرکٹ سے متعلقہ تمام عہدیدار اور کھلاڑی لاکھوں ہی نہیں کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ جب کہ دوسری کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو روزانہ کی خوراک اور دیگر ضروریات کے لئے بھی سپانسرز کی تلاش ہوتی ہے۔ بورڈ انہیں کچھ بھی معیار کے مطابق مہیا نہیں کرتا۔ ان کی گرانٹ بھی بہت کم ہوتی ہے۔ کرکٹ کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسی گیم ہو جس کے کھلاڑی بورڈ کے رویے سے مطمن ہوں۔ کرکٹ پر البتہ پیسے نچھاور کئے جاتے ہیں۔اس ادارے کا بجٹ، اس میں غیر ملکی دورے اور اس میں کھلی عیاشیاں دیکھ کر میرے سمیت ہر شخص کادل اس بورڈ کا چیئر مین بننے کو چاہتا ہے۔ویسے تو اس ادارے کی چیئرمینی کے لئے کسی معقول کھلاڑی کی نامزدگی اس ادارے اور پاکستانی کرکٹ کے نامور کھلاڑیوں کا استحقاق ہے ۔ مگر میرے جیسے ڈی کلاس کرکٹر جو محلے کی ٹیم میں بھی بارہویں کھلاڑی ہی رہے مگر چونکہ اے کلاس سیاسی ورکر ہوتے ہیں اس لئے یہاں چیئر مینی کے لئے زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نجم سیٹھی اور جناب ذکا اشرف صاحب ہی ہمیشہ موزوں قرار پاتے ہیں کیونکہ یہاں سیاسی راج اور مزاج ضروری سمجھا جاتا ہے ۔سیاست دانوں کو ٹیم کے کھلاڑیوںکی کارکردگی کی نسبت ان پر اپنی گرفت مضبوط چائیے ہوتی ہے ۔ حالانکہ کہتے ہیں کہ دونوں جناب سیٹھی اور جناب ذکا صاحب کو کرکٹ کے کھیل کا تجربہ بہت کم ہی نہیں بالکل بھی نہیں ہے۔بنیادی طور پر دونوں کرکٹ کے پلیئر ہیں۔ لیکن انہیں کرکٹ ہی کا پلئیرجانا گیا ہے۔ ویسے بھی ہمارے سیاسی کلچر میں سیاست کا گھنٹہ گھر کسی کو کچھ بھی قرار دے دے ، قوم نے واہ واہ ہی کرنا ہوتی ہے۔ بابر اعظم، رضوان اور شاہین آفریدی اے کیٹیگری کے پلئیر ہیں اور انہیں ماہانہ ساٹھ لاکھ ملتے ہیں۔ فخر زمان، حارث روف، امام الحق، محمد نواز، نسیم شاہ اور ،شاداب خان بی کیٹیگری میں ہونے کے سبب ماہانہ اکتالیس لاکھ وصول کرتے ہیں۔ باقی تمام ٹیم کے کھلاڑی سی کیٹیگری میں ہیں اور انہیں ماہانہ ساڑھے سترہ لاکھ روپے ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ مراعات اور دوسری سہولتوں کا حساب ہی نہیں۔اتنی بڑی رقم اور صفر کارکردگی کا آپس میں کوئی تال میل نظر نہیں آتا۔ ہم اس رقم کا مقابلہ بھارت کے کھلاڑیوں کو ملنے والی رقم سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھارتی کپتان کو بابر اعظم سے بارہ گنا زیادہ رقم ملتی ہے۔ ہم بھارت کی معاشی صورت حال نہیں دیکھتے، ہم ان کے سپانسرز کی تعداد نہیں دیکھتے اور سب سے بڑھ کر ان کی کارکردگی نہیں دیکھتے ۔ وہ جو لیتے حلال کر کے لیتے ہیں ان کا لیا ان کی کارکردگی کے سبب کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ آپ کیا لیتے ہیں اور آپ کی کارکردگی کتنی شرمناک ہے کبھی اس پر بھی سوچیں۔کھیل میں ہار جیت ہوتی ہے مگر ایک جاندار مقابلے کے بعد۔ آپ کو جاندار مقابلے کا تصور ہی نہیں۔ آپ سے بہتر تو افغان کھلاڑی ہیں۔ بے سروسامانی کی حالت۔ملک کی معیشت بد ترین ۔ پیسے ملنے کی کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی۔ ٹیم بالکل نئی ،بس ا پنا بچپن گزار رہی ہے مگر اس نے بد ترین حالات میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ اس سے بھی مقابلہ نہیں کر سکے۔ پنجابی لوگ کہتے ہیںکہ بھوکا بٹیر بہتر لڑتا ہے اور یہ افغانیوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ ہم کچھ سوچیں۔ یہ عیاشیوں کا وقت نہیں۔ یہ بچے زیادہ تر غریب گھروں سے آتے ہیں ۔ رقم کی غیر ضروری بندر بانٹ ان کے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ ہمیں غیر ملکی مہنگے کوچ بھی درکار نہیں ۔ ہمارے ملک میں پرانے کھلاڑیوں کی شکل میں بہترین ٹیلنٹ موجود ہے جس سے آسانی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے اپنے لوگوں کو موقع دیں۔ جو وقت بیت گیا سو بیت گیا مگر آئندہ کے لئے ہمیں ایک نئے عزم کے ساتھ ایک نئی ٹیم اور نئے کوچز کی مدد سے ایسا فریم ورک بنانا ہو گا کہ ہمارے کھلاڑی بہتر کارکردگی دکھا کر عوام کی توقعات پر پورے اتر سکیں۔