کوٹلی کے بنڈالی گاؤں میں ایک حشر سا برپا ہے۔ ہر آنکھ نم اور چہرہ اداس ہے۔اس بدنصیب گاؤں کے 28 گھروںکے سجیلے جوانوں کو یونان کا سمندر نگل گیا۔ان میں سے اب کوئی ایک بھی لوٹ کر نہ آئے گا۔مرنے والوں کے ماں باپ کی زندگی بے نور ہوگئی۔ تادم مرگ وہ انتظار کی آگ میں جلتے رہیں گے۔اپنے اپنے یوسف کے غم میں نہ جانے کتنے باپ اندھے ہوں گے۔ نوجوانوں کو یورپ لے جانے کا جھانسہ دے کر رقم اینٹنے والوں کے گروہ ہر شہر میں پائے جاتے ہیں۔سرکار نہ صرف انہیں پہنچاتی ہے بلکہ حصہ بقدر جثہ وصول بھی کرتی ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ جاں بحق ہونے والے شہریوں کے دکھ میں شریک ہونے والا کوئی نہیں۔ ریاست ہوگی ماں جیسی، باتیں شاعری کی حدتک دل لبھاتی ہیں لیکن ہم نے گزشتہ پچھتر برسوں میں ریاست کو اپنے شہریوں کے لیے ٹرپتا اور سسکتا نہیں دیکھا۔ہر سال ہزاروں لوگ حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔اخباری بیانات اور سوشل میڈیا پر چند دن چرچا رہتاہے اوپھرقبرستان جیسی خاموشی۔بنڈالی گاؤں کے جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کو بھی جلد فراموش کردیا جائے گا۔ان کے پسماندگان کی کفالت کا ریاست کے پاس کوئی نظام ہے اور نہ کوئی عزم۔نہ جانے اس وطن کو کس کی نظر کھاگئی کہ ایک حادثے کا غم ابھی غلط کرنہیں پاتے کہ ایک اور حادثے کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ریاست اور اس کے اداروںکے پاس وقت اور استعداد ہی نہیں کہ وہ آرام اور سکون کے ساتھ شہریوں کے مسائل کے مستقل حل بارے غوروفکر کرکے طویل المعیاد پالیسیاں مرتب کرے۔ باعزت روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ ریاست اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ چنانچہ پاکستان سے نوجوان یورپ اورشمالی امریکہ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔مشرق وسطیٰ کے ممالک میں چھوٹا موٹا روزگار مل جاتاہے ۔ دال روٹی کا بندوبست ہوجاتا ہے۔کاروبار چل نکلے تو اکثر کفیل قبضہ کرکے بے یارومدد گارکردیتاہے۔اسی لیے اکثر نوجوان یورپ یا شمالی امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی جستجو میں خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بھنور سے لڑتے ہیں۔ تندوتیز لہروں سے الجھتے ہیں حتیٰ کہ جان بھی ہارجاتے ہیں۔لیکن پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ بدقسمتی کے ساتھ گزشتہ چندبرسوں میں پاکستان کی معیشت بری طرح زوال پذیرہوئی۔ روزگار کے مواقع ناپید ہوگئے۔ بجلی اور گیس کے بل بھرنا جوئے شیرلانے کے متراد ف ہوگیا۔ عالم یہ ہے کہ پینے کا پانی بھی خریدنا پڑتاہے۔ سیاست بھی بھونچال کا شکار ہے۔ سیاسی جماعتوں کی تھوڑ پھوڑ ، نگران حکومتوں کی رسہ گیری اورارکان پارلیمنٹ کی طرف سے محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے کا ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کی مقدس ترین دستاویز آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیا ہے۔عدلیہ بے بس اور خاموش نظر آتی ہے۔قومی منظرنامہ پر ناامیدی،مایوسی اور اداسی کا غلبہ ہے۔برین ڈرین کے لیے آئیڈیل ماحول خود سرکار نے فراہم کیا ہے۔طرفہ تماشا !وفاقی وزراء اور حکمران جماعت کے سرکردہ رہنما ملک کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی بھی کرتے رہتے ہیں۔ ڈوبتی کشتی سے سوار چھلانگیں لگاتے ہیں تو شکوہ کیسا؟ کاروباری شخصیات ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں میں اعلیٰ مہارت رکھنے والے افراد بھی بوریا بستر اٹھا کر بیرون ملک بیسرا کرچکے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کا اخلاقی وجود کب کا ختم ہوچکا ۔ تحریک استحکام پاکستان کے نام سے ملوں کے مالکان، پراپراٹی ٹائیکون اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزیر وں اور مشیروں پر مشتمل ایک جماعت راتوں رات لاہور میں تشکیل پاتی ہے۔ان میں سے چند مسلسل ٹی وی شوز میں بھی گفتگو کرتے پائے جاتے ہیں۔ جماعت کے کرتادھرتا کہتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ حکمران اتحاد سے ہے۔جماعت کے سرپرست اعلیٰ جہانگرین ترین نوازشریف سے مشاورت کے لیے لندن جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتاہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت عوام کو بے وقوف تصور کرتی ہے یا ان کی عقل گھاس چرنے گئی ہے۔ وزیردفاغ خواجہ محمد آصف کی موجودگی میں حکمران اتحاد کو دشمنوںکی ہرگز ضرورت نہیں۔ یہ اکثر اپنے ہی لشکر پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ جس دن درجنوں پاکستانی شہری یونان کے سمندر میں ڈوبے۔ اس سے چند دن پہلے موصوف نے فرمایا کہ انگریزی بولنے والے تارکین وطن بے شرم ہیں۔ وہ پاکستان میں ماں باپ کو دفنانے کے آتے ہیں۔ جائیدادیں فروخت کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔خواجہ صاحب خاص کر برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں آباد پاکستانیوں سے شاکی ہیں کیونکہ یہ لوگ ان کے طرز حکمرانی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہیں۔حکمرانوں کے کروفراور جاہ وجلال سے متاثر نہیں ہوتے۔ بیرون ملک آباد پاکستانی جمہوری آزادیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے موثر کردار اور حکمرانوں کو پروٹوکول اور تکلفات کے بغیر زندگی بسرکرتے دیکھتے ہیں توا ن کے دل میں اک ہوک سے اٹھتی ہے کہ کاش وطن عزیز میں بھی پولیس شہریوں کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ نہ بجاتی ہو۔ تھانے عقوبت خانے نہ ہوں۔جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو ذلیل نہ کیاجاتاہو۔ان کے ساتھ مجرموں والا سلوک نہ کیا جاتاہو۔ سرکاری افسران اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا تصور بھی نہ کرسکتے ہوں۔ اس طرح کی بے جا خواہشات کا وہ اظہار کرتے ہیں تو خواجہ آصف آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔تو کھڑاک پر اترآتے ہیں۔حالانکہ خواجہ آصف سمیت اکثر وزرائ، مشیران اور سرکاری اہلکاروں کے اہل خانہ ان ہی مغربی ممالک سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہاں ہی کاروبار بھی جماتے ہیں۔ امریکہ ، کینیڈا اور برطانیہ سے پاکستان کو محض مشرق وسطی والوں کی طرح ترسیلات زر ہی موصول نہیں ہوتیں بلکہ مشکل کی ہرگھڑی میں یہ لوگ پاکستان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے لابنگ کرتے ہیں۔وطن کی شان کے لیے جان چھڑکتے ہیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب سب سے زیادہ مدد ان ہی ممالک سے آتی ہے۔ بااثر پاکستانی ان ممالک کے اداروں کو بھی آفت زدہ علاقوں میں پاکستانیوںکی مدد پر آمادہ کرتے ہیں۔ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو ڈرانے دھمکانے کی بجائے ان کے تحفظات کو سنا جائے۔ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔خواجہ آصف آج ہیں کل نہیں ہوں گے لیکن پاکستان قائم ودائم رہے گا ۔ یہ ملک کے مفاد میں نہیں کہ شہریوں کے ایک موثر ترین طبقہ کو ناراض کیا جائے۔