مان گئے بھئی یہ یار لوگ بھی کمال کے لوگ ہیں جس سے دوستی کرتے ہیں کمال یکسوئی کے ساتھ کرتے ہیں‘جس سے دشمنی کرتے ہیں وہ بھی کمال درجے کی کرتے ہیں اور جس سے رشتہ استوار ہو جائے وہ دوستی کا ہو یا دشمنی کا اسے نبھانے میں تمام تر توانائی صرف کر دیتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک کے ساتھ دوستی کر کے اردو غزل کے معشوق کی طرح رقیبوں سے بھی رابطے استوار رکھتے ہیں۔ ہر کوئی ان کی نظر التفات کا متمنی ہوتا ہے۔ چاہنے والوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور جنرل ضیاء الحق کی زبان میں مقتدرہ کی قربت کے لئے جس طرح سیاستدان ہر وقت سیٹی کی آواز کے منتظر ہوتے ہیں اور دم ہلاتے پہنچ جاتے ہیں اسی طرح یار لوگوں کے چاہنے والے بھی دائم ان کے در پر پڑے رہتے ہیں کہ کب آواز پڑ جائے۔اس لئے انہیں ایک کے ہوتے ہوئے قطار میں لگے دوسرے چاہنے والوں سے بھی رابطہ قائم رکھنا پڑتا ہے ۔ نہ محبت میں شرکت برداشت کر سکتے ہیں نہ معشوق کی خود سپردگی میں معمولی سی بھی کمی ان کو گوارا ہے۔ مکمل ملکیت چاہتے ہیں اور تھوڑی سی بی ہینکی بھینکی پڑ جاتے تو فوراً قطار میں منتظر دوسرے چاہنے والوں میں سے کسی کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اپنی محبتوں ‘ چاہتوں اور مہربانیوں کا مرکز بنا لیتے ہیں۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ بار بار یہ عمل ان کو دہرانا پڑ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے اپنے ہاتھوں کے تراشے ہوئے صنم بھی مے خانے میں اکثر بت بنے نظر آتے ہیں۔ یا تو زمانہ بے وفا ہو گیا ہے یا یہ معشوق رکھنے کی صلاحیت (retention power) سے محروم ہیں یا پھر ویسے بھی عین انسانی جبلت کی طرح تغیر پسند ہیں اور جلد ہی ان کا دل بھر جاتا ہے یا پھر چاہنے والوں کی لمبی قطار یار لوگوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ دوسروں کو بھی اپنی نظر التفات سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کریں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو آج کل یار لوگ پھر اپنی کرم فرمائی کا مرکز تبدیل کر کے مرزے یار کو اپنی تمام تر مہربانیوں کا مرکز بنا چکے ہیں۔صاحبان تک پہنچنے کے لئے راستے کی تمام گلیاں تو پہلے ہی سنسان کی جا چکی ہیں، ہر طرح کے خطرات سے ماحول کو پاک کیا جا چکا ہے بلکہ صاحبان کی سیج بھی سجائی جا چکی ہے۔ اس سیج کے تمام کارپردازان کو پہلے ہی مرزے یار کی صوابدید پر چھوڑا جا چکا ہے تاکہ وہ خود ہدایات دے کر سیج تک پہنچنے کے راستے اور اس کے اردگرد اپنی مرضی کا ماحول بنوا سکیں۔ کئی تو کہتے ہیں کہ یہ سارا عمل بنیادی طور پر کسی اصل کھانے کی مرکزی ڈش سے پہلے بھوک بڑھانے والا appetizaہے یا پھر ریستوران کے اصل مالکوں یعنی یار لوگوں کی طرف سے خوش آمدید کہنے کا ہے۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مرزا یار صاحبان تک پہنچنے کے لئے کچھ زیادہ ہی بے چین تھا اس لئے انہوں نے پہلے ہی سیج کے تمام معاملات اس کی صوابدید پر دے دیے اور تمام کارپردازان کو بھی حکم دے دیا کہ مرزے یار کی مکمل تابعداری کریں بلکہ بہت سے کارپردازان کی تو تقرریاں بھی اسی کے تابع فرمان کر دیں اب سن رہے ہیں کہ مرزے یار کو مکمل spaceفراہم کرنے میں باقی رہ گئی کسر بھی نکالی جا رہی ہے اور نہ صرف یار لوگ مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کر چکے ہیں بلکہ نکاح خوان بھی پوری دلجمعی کے ساتھ دیگر تمام ممکنہ امیدواران سے اپیل کر چکے ہیں کہ مرزے یار کو spaceدی جائے، جس کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ سنگھاسن تک پہنچنے میں کسی بھی طرح کی کوئی رکاوٹ دور کر دی جائے۔ اپنے مسترد معشوق کو تو یار لوگوں نے مکمل بے یارو مدد اور اپاہج کر کے مرزے یار کا راستہ ہموار کر ہی دیا ہے اسی دوران ایک اور سابقہ چاہنے والے نے بھی یار لوگوں کی قربت کے لئے زور لگانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی تاثر دینا شروع کر دیا تھا کہ اب اس کی باری ہے لیکن نہ صرف یار لوگ بلکہ نکاح خواں نے بھی ایسے کسی امکان کو مسترد کرتے ہوئے تمام دیگر امیدواران چاہت کو مرزے یار کو spaceدینے کا کہا ہے۔ ادھر تو یہ صورتحال ہے جبکہ دوسری طرف یہ حالات ہیں کہ مسترد کردہ معشوق کے حواری بھی ابھی بھی پریقین ہیں کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے سیج پر انہی کا مرزا براجمان ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو وہ مرزے یار کے تمام راستے مسدود کر دیں گے۔ پتہ نہیں وہ خوابوں کی جنت سے کیوں نہیں نکل پا رہے۔ دنیا تو واقعی ادھر سے ادھر ہو چکی ہے لیکن بھونپو ان کو لوریاں تسلیاں دے کر حقیقت کو سمجھنے کی ان کی صلاحیت کو مکمل طور پر مائوف کر چکے ہیں۔ لیکن نہیں شاید کچھ لوگ صورتحال کو سمجھ بھی رہے ہیں اس لئے تو نکاح خواں سے پرسا دینے کے بہانے ملاقات کر کے اس کی امامت قبول کرنے کا عملی مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔ یہ شاید نکاح خواں کو مرزے یار کو spaceدینے کی اپیل کو ماننے بھی کچھ زیادہ آگے کی بات ہے اب شاید پرسا دینے والوں کو کچھ گنجائش کی ضرورت ہے اور سن رہے ہیں کہ اس ملاقات کا مقصد بھی یہی تھا اب وہ لوگ تنہائی سے نکلنا چاہتے ہیں اب انہیں سمجھ آئی ہے کہ کہ ہم جنس باہم جنس پرداز ’’یا‘‘ کبوتر ‘ کبوتر ‘ باز یا باز یعنی مفادات اپنی جگہ لیکن اپنے ہم جنسوں سے بنا کر رکھنی چاہیے رابطے استوار رہنے چاہیں یار لوگوں سے تعلقات اپنی جگہ ان سے امیدیں وابستہ کرنا اپنی جگہ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے آپ کو تنہا مت ہونے دیں۔پہلے اپنی قدر بنائیں پھر یار لوگوں کو مکمل اطاعت کا عندیہ دیں پھر نظر التفات کی امید لگائیں تو وہ تو جس کو بھی چاہیں مرزا یار بنا دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔سیج کے مالک مطلق جو ٹھہرے۔