اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں سے زبان کو بہترین تخلیق کا درجہ حاصل ہے ، انسان کو جس بناء پر اشرف المخلوقات کہا گیا اس کی ایک اہم وجہ زبان بھی ہے ، سائنس کی دنیا میں زبان کا نام انسان اور انسان کا نام زبان ہے ۔ زبان ایک طرز حیات ، ایک اسلوب زیست اور ایک ایسا لافانی نظریہ ہے جو انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ زبان تعصب نہیں ، محبت کا نام ہے ، لیکن اس فلسفے کو نہیں سمجھا گیا ، قیام پاکستان کے وقت سے ہی زبان کے مسئلے کو متنازعہ بنایا گیا ، حالانکہ ہندوستان اور پاکستان نے ایک ہی وقت میں آزادی حاصل کی ، ہندوستان نے اس مسئلے کا حل فطری اصولوں کے مطابق یہ نکالا کہ نہ صرف ہندی بلکہ ہندوستان میں بولی جانیوالی تمام بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا اور بچوں کو ان کی ماں بولی میں تعلیم کا حق بھی دے دیا ۔ البتہ اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی کو برقرار رکھا گیا ۔ آج پاکستان میں اسی طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ 21 فروری ماں بولی کا عالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں یہ دن نہایت ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ماں بولی کے عالمی دن کے پس منظر کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ21 فروری 1952 ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنی بنگالی زبان کے حق میں جلوس نکالا ، سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے بہت سے طلبہ شہید ہوئے ، یہی بات مغربی اور مشرقی پاکستان میں تفریق کا باعث بنی اور علیحدگی پر منتج ہوئی۔ 1999ء میں بنگلہ دیش نے قرارداد پیش کی اور اقوام متحدہ نے 1952ء میں شہید ہونے والے بنگالیوں کی یاد میں 21 فروری کو ماں بولی کا دن قرار دیا،اس حوالے سے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی تقریبات منعقد ہوتی ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں صرف تقریبات منعقد کی جائیں گی یا پھر عملی طور پر بھی پاکستانی زبانوں کی ترقی کیلئے کچھ ہو گا؟ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ ایک طرف پاکستانی زبانوں جسے ہم ماں بولیوں کا نام دیتے ہیں کے حقوق کیلئے سیمینار ، ورکشاپس ، کانفرنسیں ، جلوس اور ریلیاں ہو رہی ہیں ، ریڈیو ٹیلی یژن پر پروگرام ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ماں بولیوں کا گلہ دبایا جاتا ہے، ماں بولیوں کیلئے محض ’’ لولی پاپ ‘‘ کے سوا کچھ نہیں ۔ چینی، عربی ،فارسی، اردو، انگریزی کے مخالف نہیں مگر اس کے بدلے پاکستانی زبانوں کا استحقاق مجروح نہیں ہونا چاہئے۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرات ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالب علم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی زبان کو آئوٹ کرنے کا مقصد کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اس کی ماں بولی چھین رہے ہیں تو گویا ماں دھرتی اور ماں بولی کے علم سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کر رہے ہیں اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہیہیں، ایساکر کے آپ اس کا انسانی شرف چھین کر اس میں حیوانیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لوگ تہذیب ، تمدن اور زبان ثقافت سے محروم ہوتے ہیں تو پھر ان میں حیوانیت آ جاتی ہے اور پھر حیوانیت کے روپ چیر پھاڑ والے ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے ، آج کا بحران تہذیبی بحران ہے، ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ماں بولی کی اپنی ایک حیثیت ہے ، پاکستان میںعلاقائی زبانوںکو قومی زبانوں کا درجہ اور بچے کو کم از کم ابتدائی تعلیم اس کی اپنی ماں بولی میں پڑھنے کا حق ملنا چاہئے کہ بدیسی زبانوں کے مقابلے میں دھرتی کی زبانوں کی اپنی حیثیت ہوتی ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے ، فارسی نے پورے ہندوستان پر صدیوں تک راج کیا لیکن جونہی فارسی کو نافذ کرنے والے مغل حکمران گئے تو فارسی بھی چلی گئی اور اس کے مقابلے میں دبائے جانے کے باوجود دھرتی کی زبانیں ہمیشہ زندہ رہیں ۔ آنے والا وقت دھرتی کی زبانوں کا ہے اور پاکستان کا آئندہ بیانیہ ثقافتی پاکستان کے حوالے سے نظر آ رہا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ حرف آخرکے طور پر گزارش کروں گا کہ پاکستان کے ارباب اختیار کو مصنوعی پالیسیاں ترک کر کے فطری اور حقیقی پالیسیوں کو اختیار کرنا ہو گا اور پاکستان کو تہذیب و ثقافت کا گلدستہ اس صورت میں بنانا ہوگا کہ اس گلدستے میں پاکستان کی تمام زبانیں اور تمام ثقافتیں پھولوں کی شکل میں اپنی رنگوں اور اپنی خوشبوؤں کے ساتھ موجود ہوں ۔