دبئی میڈیا سنٹر میں بیٹھا تھا، ان دنوں راولپنڈی میں ایک ماہ سے کرفیو نافذ تھا، عبدالرحمن الراشد عرب نیوز میں لکھتے تھے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئے مجھ سے پوچھا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے میں نے اثبات میں سر ہلایا، پوچھا کیا وجہ ہے راولپنڈی میں کرفیو کی؟ میں نے بین السطور میں جواب دینے کی کوشش کی، کافی پی رہے تھے نفی میں سر ہلایا اور مجھے کہنے لگے یہ تم لوگوں کی خوفناک کمزوریاں سمجھ سے بالاتر ہیں، اس خطے میں فرقہ وارانہ سوچ کی دائمی موجودگی کیوں ہے، میں نے ان سے کہا کہ بنیادی طور پر ایک تو ہم قدیم مسلمان نہیں، دوسرا ہم تراجم کے محتاج ہیں جس کی وجہ سے مختلف نظریات وجود میں آئے اور پھر انہیں پھیلانے کی دوڑ شروع ہوگئی، جس کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال میں لایا گیا۔ الراشد نے مجھ سے پوچھا کہ ریاست کو مذہب کے ماتحت ہونا چاہیے یا مذہب کو ریاست کے، بڑا اہم اور پچیدہ سوال تھا میں نے پوچھا اپ کا اشارہ کہ مسجد مدرسے اور دیگر امور میں ریاست اپنی جیب سے کفالت کرے یعنی مسجد مدرسہ ریاست بنائے اسکے مکمل اخراجات برداشت کرے یا اس کے مکمل کنٹرول کی بات کر رہے ہیں انہوں نے اول الذکر کی طرف اشارہ کیا میں نے پھر پوچھا جیسا عرب کی اکثریت میں ہے ریاست مسجد بناتی ہے امام خادم تنخواہ رہائش اور دوسری ضروریات کی ذمہ دار ہے کوئی فنڈ نہیں لیتی انہوں نے اثبات میں سر ہلایا میں نے ان سے کہا کہ بہت وسیع بجٹ درکار ہوگا ہمارا دارومدار قدرتی وسائل پر بھی نہیں ہم غریب ملک ہیں اپنا گزارا بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے انہوں نے کہا تمہارا دوسرا تعلیمی نظام کتنا مہنگا ہے؟ میں نے کہا کافی مہنگا ہے پھر انہوں نے پوچھا کس حد تک یہ نظام سود مند ہے اگر اتنا ہی سود مند ہوتا تو آج کرفیو یوں نہ ہوتا تم لوگ جدید تعلیم مسجد مدرسے تک کیوں نہیں لے جاتے معذرت تمہارا نظام تعلیم بہت سارے حصوں میں منقسم ہے جو کچھ پڑھاتے ہو عملی طور پر نظر کیوں نہیں آتا جب تک یہ تضاد ختم نہیں ہوتا تمہاری تمام کوششیں لایعنی ہیں، میں نے ان سے کہا آزادی سے پہلے ہی انگلش ہماری زبان اور نظام میں داخل ہو چکی تھی، انہوں نے کہا ہمارے ہاں کیوں نہیں ہوئی، ہم بھی انہی کی کالونی رہے ہیں کیا ہم مذہب اور جدت کو ایک ساتھ نہیں لے کر چل رہے ہیں یہ ایک دم سے نہیں ہوا آپ سیدھی راہ پر چلیں گے تو مشکلات آئیں گی مگر استقامت بڑی اہم ہوتی ہے یہ نشست موجودہ حالات میں یاد آئی بڑے کٹھن حالات میں صاحبان ثروت ہمارے دینی اداروں مسجدوں کو چلا رہے ہیں آخر ایسا کیوں ہے چلیں تخلیق پاکستان کے وقت بہت سے مسائل تھے ہم کسی نتیجے پر فوری نہیں پہنچ سکتے تھے مگر اب تو 76 برس گزر گئے مختلف زبانوں کے استعمال نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ایسے تو یکجہتی کسی طور بھی ممکن نہ تھی ہمارے ہاں حکومت کو ریاست تصور کیا جاتا ہے ریاست ہمیشہ رہتی ہے حکومت تبدیل ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے جس کا جو جی چاہا وہ نصاب پر مذہب پر کلچر پر بھرپور اثر انداز ہوا یہ بھی نہ سوچا کہ کس درجہ تباہی آئے گی آج حالت یہ ہے کہ جیسے ایک گھر میں ایک ہی چھت کے نیچے پندرہ بیس افراد اجنبیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہوں کسی کو کسی سے کوئی سروکار ہی نہیں جعلی تاریخ اور وقت کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے والے قصے فتوحات نصاب کا حصہ بنا دیے گئے غزنوی نے بتوں کو پاش پاش کر دیا سکندر جب دنیا سے گیا تو خالی ہاتھ تھا رنگون بلخ بخارا اندلس اور ایک خط کی بنیاد پر فتوحات ہم نے خود پڑھی تھیں کیا ہمیں معلوم نہیں کیا جذبات ہوتے تھے اس وقت ہمارے اجتماعی اجر اور ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں ثانوی اجر کی اہمیت بڑھ گئی دو سال سے زائد عرصہ ہو گیا مجھے عرب لٹریچر پڑھتے ہوئے حریت کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے ہمارا دور دور تک واسطہ نہیں اس سے اس وقت ایک من لوہا تلوار کا وزن علیحدہ سے جنگ کے لیے اٹھانا یہ صرف عرب کا ہی خاصہ تھا اور وہ ایک تہذیب کلچر ہزاروں سال سے رکھتے تھے صحرا کی تمازت کا ہمیں کیا پتہ بس ہم نے پڑھا اور شروع ہو گئے اور بھول گئے کہ ہم ہزاروں سالوں سے اشرافیہ ہی کے رحم و کرم پر رہے ہیں حتی کہ ان کے بت بنا کر پوجتے تھے اور وہی آج تک ہم میں موجود ہے عمل کرنے اور نقل کرنے میں فرق ہے ایک مکمل دین آپ تک پہنچا بس پیروی کرو کسی صورت بھی ایسی حریت کی جستجو ہم بھلا کیسے کر سکتے تھے؟ آج دنیا میں ہماری تنہائی کا سبب ہمارے رویے اور ضد ہے، اسلام کو ہم نے تسلیم ہی کب کیا جو بچانے نکل پڑے دنیا کا عالمگیر مذہب ہے جو آج بھی موجود ہے، معذرت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام ہماری حرکتوں کی وجہ سے پریشان اور پشیمان ہے دنیا کے سامنے وہ ایک اور تصویر پیش کر رہے ہیں اور اکیلے ہم بالکل ہی مختلف ایسا کب تک چلے گا چند لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیتے ہیں خدا کے بندو ایسی حالت میں کون سرمایہ یہاں لے کر آئے گا ریاست کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی دنیا نے ریاست کے ساتھ چلنا ہے کسی گروہ کے ساتھ نہیں ویسے ایک بات ہے روز آپ ایک چمچ سرخ مرچ ایک جگہ رکھتے جائیں ایک سال بعد اس کا وزن کریں تقریبا تین چار کلو تو ہوگا اتنی مرچ ہم ایک سال میں کھا جاتے ہیں کیسے ممکن ہے ہم میں تحمل مزاجی برداشت اور درست بات کو تسلیم کرنے کی ہمت ہوگی ہماری کوئی بھی چیز جدت سے ہم آہنگ نہیں ہوتی ،سائنس سے ہمیں نفرت تھی آج خوف میں بدل چکی ہے، ہم ڈرے ہوئے حفظ ماتقدم کی لت میں مبتلا ہیں دل مانتا ہے کہ یہ سب کچھ دقیانوسی ہے ۔