‘‘ سرائے ترین محلہ میں ہی ایک شخص نے بتا یا کہ کس طرح جب ان کے بھائی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی، تو آدھی رات کوبرق صاحب ان کے اہل خانہ کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچے اور رات بھر وہیں رہے، تاآنکہ صبح اس کو اپنے ساتھ رہا کروا کے گھر لاکر ہی دم لیا۔ اس سے یہ بات بھی نقش ہوگئی،کہ مقامی طور پر مسلمانوں کا ایشو تعمیر و ترقی کے بجائے پولیس اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے بچاو ہی ان کی ترجیح ہے۔ رام پور میں اعظم خان نے ترقیاتی کام توکروا ئے ہیں، مگر ان کا متکبرانہ رویہ ، ووٹروں کو رعایا کی طرح ہانکنا اور ان کی عزت نفس کو للکارنا، ان کے تمام کاموں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ عوامی نمائندہ ووٹروں کو انسان سمجھ کر ان کے ساتھ کھڑا رہے، چاہے اس سے ترقیاتی کام نہ بھی ہوسکیں ہوں۔یہ کام کروانا تو ویسے بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ معصوم سے ان کارو باریوں اور دستکاروں کی سیاست اور عوامی نمائندوں سے متعلق یہ گفتگو میرے لئے بھی انکشاف سے کم نہیں تھی ۔ اس شہر میں ایشیا کی سب سے بڑی مینتھا آئل مارکیٹ موجود ہے، جس سے پانچ لاکھ افراد کی روزی روٹی جڑی ہے۔ جس میں مینتھا گھاس اگانا، تیل نکالنا اور اس کی برآمد شامل ہے۔ تیل دواسازی، پرفیوم، ٹوتھ پیسٹ، چاکلیٹ اور سگریٹ میں اور تقریباً ہر اس چیز میں ایک لازمی جزو ہے جس کو ٹھنڈک اور تازگی کے ایجنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے علاوہ یہ شہر جانورں کی ہڈیوں اور سینگوں کی دستکاری کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ تقریباً 40,000 کاریگر گندی ہڈیوں اور جانوروں کے سینگوں کو عالمی معیار کے زیورات میں تبدیل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ سنبھل کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس خطے میں 55 فیصد مسلم ووٹر ہیں، جن میں سے اکثریت کو اپنی ترک نسل ہونے پر فخر ہے۔اس شہر کوچھوٹا ترکی بھی کہا جاتا ہے۔ برق صاحب بھی ترک نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ شہر میں تقریبا چار لاکھ آبادی ترک نسل کی ہے ۔ بتایا جاتا ہے 12ویں صدی میں غازی سالار مسعود میاں کے ساتھ جو لوگ آئے تھے، وہ اسی علاقہ میں آباد ہوگئے۔ مگر اس کے بعد بھی ترکوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا ۔بھارت میں ترکی کے ایک سفیر حسن گوگس کو اس وقت حیرت ہوئی جب انہیںپتہ چلا کہ اس خطے میں بڑی تعداد میں ترک باشندے آباد ہیں۔ نئی نسلیں اب بھی ترکی میں رائج مختلف رسوم و رواج سے منسلک ہیں۔ تہوار کے موقعوں پر پورے خاندان کا رکابی (ایک بڑے سائز کی ایلومینیم کی پلیٹ) میں مل کر کھا نا کھانا اور مہمانوں کو 'ترک طبق ' (گھی اور چینی کے ساتھ پکائے ہوئے چاول) پیش کرنے کا رواج ترکی کے بعد اسی علاقے میں پایا جاتا ہے۔ جہاں پورے جنوبی ایشیا ء میں چائے دودھ کے ساتھ پیش کی جاتی ہے، سنبھل ایک ایسا جزیرہ ہے، جہا ں بغیر دودھ کی سیاہ ترک چائے پیش کی جاتی ہے۔ بر ق صاحب کے علاوہ جس ترک نے جنوبی ایشائی سیاست میں نام کمایا وہ مولانا اسماعیل سنبھلی تھے۔ وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ لیکن بعد میں وہ کانگریس میں چلے گئے،انہوں نے کئی بار صوبائی اسمبلی میں علاقے کی نمائندگی کی۔ اونچی ذات کے ہندوئوں کے مطابق سنبھل ایک اساطیری جگہ بھی ہے جہاں کل یگ یعنی آخری زمانے میں ہندو دیوتا وشنو ، کلگی اوتار کے روپ میں اتارا جائیگا۔ ہندو فرقہ پرست اس شہر کی جامع مسجد پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور اس کو کلگی اوتار کے اترنے کی جگہ بتاتے ہیں۔ اس کیلئے کئی تنظیمیں پس پردہ کام کررہی ہیں، جن کو شفیق الرحٰمن برق کی وجہ سے کھل کر کھیلنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس مسجد کو دوسری بابری مسجد بھی کہا جاتا ہے اور اسکی تعمیر بھی ایک جنرل میر ہندو بیگ نے تقریباً اسی وقت 1526 میں کی، جب ایودھیا میں ایک اور جنرل میر باقی نے مسمار شدہ بابری مسجد کی تعمیر کی تھی۔ یہ واحد ایسی زندہ بچ جانیوالی مغل عمارت ہے، جس کو شہنشاہ بابر کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دیگرایسی عمارات میں ایک پانی پت کے مقام پر کھنڈر کی شکل میں ہے اور دوسری کو ایودھیا میں 1992 میں ایک ہجوم نے منہدم کر دیا تھا اور اس جگہ اب رام مندر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی تاریخی حیثیت کے بارے میں ایک بار برق صاحب نے کہا تھا کہ ہندو 1877 میں ایک عدالتی مقدمے میں اس جگہ پر اپنا دعویٰ کھو چکے ہیں۔ اعظم خان کی طرح تقاریرسے وہ برق تو نہیں گراتے تھے، مگر متحمل مزاج ہونے کے باوجود وہ سرخیوں میں رہتے تھے۔2019 کو بطور ممبر پارلیمنٹ جب و ہ حلف اٹھا رہے تھے، تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے بنچوں سے جے سری رام اور وندے ماترم کے نعرے بلند ہو رہے تھے اور ان پر فقرے کسے جا رہے تھے، تو انہوں نے کہا کہ وندے ماترم ان کے عقیدے کے خلاف ہے۔ جس پر ہنگامہ مچ گیا۔ مگر میں نے ہمیشہ دیکھا کہ پارلیمنٹ کا سیشن ختم ہونے پر جب وندے ماترم کی دھن شروع ہو جاتی تھی، تو وہ ایوان سے باہر چلے جاتے تھے۔ بابری مسجد کے حوالے سے بھی ان کا کہنا تھا کہ رام مند ر کی تعمیر ہوئی تو کیا ہوا، وہ بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کرانے کی اپنی جدوجہدسے کنارہ کشی نہیں کریں گے۔اپنے گھر پر ملاقاتی کمرے میں دیوار پر انہوں نے بابری مسجد کا ایک بڑا پورٹریٹ آویزان کرکے رکھا ہوا تھا۔ 1986میںاسوقت کی کانگریسی حکومت نے جب بابری مسجد کا تالہ کھول کر وہاں ہندوں کو پوجا کرنے کی اجازت دی ، تو ان کے ہی گھر پر اعظم خان اور ظفر یاب جیلانی نے بابری مسجد کی بازیابی کی تحریک کی داغ بیل ڈال دی۔ ان کے پوتے ضیاء الرحٰمن برق ، سنبھل شہر کے بغل میں کوندارکے حلقہ کی اتر پردیش کی اسمبلی میںنمائیندگی کرتے ہیں اور فی الحال اپنے دادا کی سیاسی وراثت کے دعویدار ہیں ۔ برق صاحب واقعی بھارتی مسلمانوں کی ایک دردمند آواز تھے ۔مایوسی کے دور میں بھی خاصے باہمت اور باحوصلہ انسان تھے۔ کسی نے ان کے بارے میں کیا خوب کہا ۔۔ دکھائی دیتا تھا عام انسان کی طرح درد قوم تھا سینے میں سمندر کی طرح کر گیا غمگین زمانے میں مسلمان ہند کو آواز مسلمان بن کر چمکتا تھا وہ برق کی طرح اللہ برق صاحب کو کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔i