مشتاق احمد یوسفی نے سچ کہا تھا: زندگی کے جو اَیام پہاڑ پر بسر ہوں، وہ عمر سے منہا نہیں ہوتے۔ پھر اگر وہ پہاڑ بھی کشمیر کے ہوں تو ساتھ ’سبحان اللہ‘ کی داد تو خود بخود زبان سے ادا ہو جاتی ہے۔ کشمیر جنت نظیر، جو کسی کی شاہ رگ، کسی کا اٹوٹ انگ ہے، اس کے بارے میں ایک بات طے ہے کہ مصورِ فطرت نے ذہن و قلب کو منور و معطر کرنے والے سارے رنگ، سارے ڈھنگ، سارے انگ اس خِطۂ ارضی پہ نچھاور کر دیے ہیں۔زندگی کی ہماہمی اور مصروفیات کی کشاکش سے نظر بچا کے مَیں جب بھی کبھی شمالی علاقہ جات کی سیاحت کا قصد کرتا ہوں تو یہ احساس اور بھی جاگزیں ہو جاتا ہے کہ قدرت نے ہماری کون سی ادا پہ حد درجہ مہربان ہو کر ہمیں پہاڑ، سمندر، صحرا، میدانی زراعت جیسی جملہ بوقلمونیوں سے وافر انداز سے نواز دیا لیکن ساتھ ہی ہماری کسی خطا کی پاداش میں بے ذوق منتظمین و مصلحین بھی ہمارے اوپر مسلط کر دیے،اپنی شب و روز کی فتنہ پردازیوں، فرقہ اندازیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے وہ اِن سرمدی نعمتوں کا شکر تو کیا ادا کرتے، انھوں نے ان کو سنبھالنے کا فریضہ بھی ڈھنگ سے ادا نہیں کیا۔ وگرنہ کون نہیں جانتا کہ گلوبل ولیج کا روپ اختیار کرتی اس دنیا میں اگر ہم اپنے ان قدرتی نظاروں کی سلیقے سے تشہیر و تعمیر ہی کر لیتے تو ہمیں ہر کہ ومِہ کے سامنے کاسۂ گدائی پھلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ شاید ہم بھی شاعرانہ احساس والی اس غیرت کے امین بن جاتے: پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا ہماری کلاس فیلو بلکہ قیاس فیلو ڈاکٹر حمیرا ارشاد کو قدرت نے بے پناہ انتظامی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ انھوں نے ایک جامعہ کی چیئر پرسن ہونے کے ناطے اپنی تعلیمی، تنظیمی صلاحیتوں کا لوہا تو کئی سال تک منوایا ہی ہے لیکن چند بکھرے نکھرے خاندانوں کو چند دنوں کے لیے ہی سہی، لاہور کی گرما گرمی سے اٹھا کر ٹھنڈے میٹھے علاقوں میں جا بسانا اور تلخ و تُرش معمولات کو شیریں ادامشمولات میں تبدیل کر دینا، اِن کی اضافی خوبی ہے۔ ہمیں کشمیر دل گیر کا نشہ لگانے کا الزام تو سیدھا اِسی کے سر جاتا ہے۔ اوپر سے اس کے میاں ظہیر الدین بابر (عیش کوش کی بجائے، کیش کوش والے بابر) پیسوں کی پوٹلی اٹھائے ہمارے ناشتے، کھانے کے لیے، آٹے دال اور گرما گرم کُوچ کے لیے ٹھنڈی ٹھار کوچ کا بھاؤ معلوم کرتے رہنے کی بنا پر ہر ایک کے بابر بھائی کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ پچیس نفوس پر مشتمل یہ قافلہ کہ جس میں میری بیٹی نبیہہ کے علاوہ بھانجیوں، بھتیجیوں، شاگردوں کی کثیر تعداد موجود تھی، دس جون کی رات ساڑھے گیارہ بجے وحدت کالونی سے اورینٹل کالج میں ہماری جونیئر پروفیسر شہناز کے گھر سے روانہ ہوا، جہاں ان کی دھان پان سی ایم فل انگلش بیٹی رِجا وحید پوری میزبان بنی بیٹھی تھی۔ کسی بھی سفر میں زنانہ اکثریت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سفر و قیام و طعام میں سلیقہ خواہ مخواہ ہی در آتا ہے۔ محض عمر کا فائدہ اٹھا کے ہم جیسے سستجو تو مخدوم کے درجے پہ فائز ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بھیگتی رات میں موٹر وے کے سنسان سفر کو مس صائمہ اسلم اور پروفیسر سعدیہ عامر کے ذوقِ موسیقی نے اور بھی دل کش اور روح پرور بنا رکھا تھا۔جب لتا منگیشکر اپنی لچکیلی، سریلی آواز میںپوچھتی: کیا یہی پیار ہے؟ تو پوری بس یک زبان ہو کر جوب دیتی : ہاں یہی پیار ہے!! ڈاکٹر نورین رزاق اور ان کے میاں تنویر عباس نے تو اپنی ذاتی تگ و دَو کے بل بوتے پر اس اجتماعی مشغلے میں بھی انفرادی ہنی مون کے امکانات خود روشن کر لیے تھے۔ جعفر بلوچ کے داماد پروفیسر غلام صابر اور فلاسفر نواسے عیسیٰ کی گھمبیر خاموشی ، پروفیسر فوزیہ کی استراحت پسندی اور ناصرہ بودلہ کی کتب بینی سے اپنی مرضی کا مفہوم ہم خود ہی اخذ کر لیتے تھے۔ فرزین کے ڈی ایس ایل آر، موٹف والی عائشہ اور ایف سی والی فاطمہ افضل کے کیمروں نے ہر اچھے منظر کو نگل لینے کی تو جیسے قسم کھا رکھی تھی۔ اُوفیٰ خان کی پُرکیف کیلی گرافی میرے لیے حسین انکشاف تھی۔ کُوچ کے پانچ گھنٹے بعد ہماری آنکھیں پہلی بار اسلام آباد کو سویا ہوا اور کسی کی یاد میں کھویا ہوا دیکھ رہے تھے۔ فجر کی نماز بھارا کہو میں ادا کرنے کے بعد ناشتے کے لیے مری کے مضافات میں پڑاؤ ڈالا گیا۔ اونچے خوابوں والے ان مسافروں نے خواب کواڑوں پہ ہر لمحہ دستک دینے والی مری کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ دل دریائی ناشتے کے بعد اُجلے پہاڑوں سے آنکھیں سینکتے ہم مظفر آباد پہنچے جہاں Haven in Hills والے صدیق شاہ کیرن اور شاردا کے ہوٹلوں میں ہماری بکنگ کروانے کے بعد ہمارے منتظر تھے۔ یہیں سے اٹھکیلیاں کرتا دریائے نیلم بھی ہمارے ساتھ ہو لیا۔ نیلم جہلم کے سنگم، کُنڈل شاہی کے طلسمی واٹر فال، کیرن کے سبز پہاڑوں، شاردا کی بدھا یونیورسٹی، کیل کی رنگا رنگی اور اڑنگ کیل کی حشر سامانیوں کو دیکھ کے یہ احساس مزید گہرا ہوتا چلا گیاکہ تھوڑی سی پلاننگ سے یہاں پورے ملک کے لیے وافر بجلی اور عالمی سیاحت کے لیے کافی جلوے فراہم کیے جا سکتے لیکن ہم نے تو ان دلبر پہاڑوں کو گنجا اور سندر دریا کو شاپروں، پیمپروں سے گندا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، جسے دیکھ کے ہر ذی شعور کی زبان پر یہی شکوہ ہے: پھیلی جاتی ہی ہر طرف آلودگی کون روکے گا بڑھ کے یہ بے ہودگی پیڑ کٹتے گئے ، ظرف گھٹتے گئے دُور ہوتی گئی ہم سے آسودگی ایسے میں ہمیں تو شیخوپورہ سے موٹر وے کے راستے لاہور آتا وہ جاپانی پائلٹ مسٹر چھِکارا بھی یاد آیا، جس نے ارد گرد لہلہاتے کھیت دیکھ کے پوچھا تھا کہ یہ سب زمینیں پاکستان کی ہیں؟ ہمارے اقرار کے بعد اس نے حیرت سے پوچھا تھاکہ اس کے باوجود پاکستان ایک غریب ملک ہے؟ ہم نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ ملک زمینوں کی وجہ سے نہیں، چند چوروں کی وجہ سے غریب ہے۔ دریائے نیلم کے کنارے برپا بون فائر کے سہارے بیٹھی مدیحہ کی مترنم انگریزی حمد اور بختاور (بغیر بھٹو) کی آواز میں ’’نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں‘‘ سن کے تو دریا بھی کہہ رہا تھا کہ بھلا یہ بھی کوئی بھرنے والی چیز ہے؟ دوستو! اب تو جسمانی طور پر کشمیر سے واپسی کو دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں لیکن ذہن و دل ہیں کہ مراجعت کو کسی صورت تیار نظر نہیں آتے۔ جیسے ہی آنکھ لگتی ہے دریائے نیلم، اڑنگ کیل کو جاتی چیئر لفٹ اور سبز پہاڑخواب میں آنکھ مچولی کھیلنے لگتے ہیں۔اپنے اپنے گھر پہنچنے کے بعد بھی پچیس کے پچیس لوگ ان سنہری یادوں کے خوش رنگ منظرنامے کو زائرین بلکہ ساحرین کے کیمروں میں پڑی روح پرور تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے مکمل کرنے کے لیے جملہ احباب سے آج بھی فرمائش کناںہیں کہ: میرا کچھ کشمیر تمہارے پاس پڑا ہے وہ بھجوا دو !!!!!!