کُتی مرے فقیر دی جیہڑی چوں چوں نت کرے ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا رات بلے پنج ست مرن گواڈنا ،رہندیاں نوں تاپ چڑھے سنجیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے مجھے زندگی گزر گئی لیکن اس پنجابی فوک گیت کی آج تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ اس میں کس طرح کے ماحول کی خواہش کی گئی ہے کیونکہ اس کے مطلب کو کبھی کسی مثال سے واضح نہیں کیا گیا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ طلباء کے سامنے ہمیشہ کسی معاملے کو مثال دے کر واضح کیا جائے تو تبھی ان کو صحیح سمجھ آتی ہے۔ لیکن اب اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے اس کی اس حد تک سمجھ آ گئی ہے کہ میں آپ کو بھی سمجھا سکتا ہوں بلکہ مثال دے کر اس طرح آپ پر مطلب کو واضح کر سکتا ہوں کہ آپ آگے اور لوگوں کو بھی سمجھا سکتے ہیں یعنی میں اس فوک گیت کی تشریح کے حوالے سے تو ماسٹر ٹرینر(Master Trainer) بن گیا ہوں اور اس کے لئے میں اپنے یار لوگوں کا تہہ دل سے ممنون احسان ہوں. ذہن میں رکھیے کہ اس دوہے کا لب لباب یہ ہے کہ اس طرح کے حالات پیدا کئے جائیں کہ مرزا یار مکمل آزادی کے ساتھ بغیر کسی طرح کے خوف کے اپنی محبوبہ سے مل سکے۔ کتی مرے فقیر دی والے فقرے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے تیسے بھی ممکن ہو تمام وسائل تمام ادارے ‘ تمام حکومتیں ‘ تمام قوانین و اصول وضوابط ‘ تمام طاقت‘ تمام ہتھیار اور دیگر ذرائع استعمال میں لاکر ’’فقیر کی کتی‘‘ کو مار دیا جائے کیونکہ اس کی چوں چوں کا شور ماحول میں اس طرح کی خاموشی پیدا نہیں ہونے دیتا کہ جس میں مرزا یار کی محبوب کے ملنے کی جگہ مکمل طور پر محفوظ ہو سکے اور کتی کو مار دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہر طرف مکمل ہو کا عالم پیدا کر دیا جائے تاکہ مرزا یار مکمل اطمینان کے ساتھ محبوب کو مل سکے۔ پھر کتی کا یہ بھی وطیرہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ کاٹ ہی نہ لے تو اس کو ختم کرنے سے گویا مرزا کے لئے تمام بیرونی و جسمانی خطرات بھی ٹل جائیں گے۔یعنی ایسا ممکنہ خطرہ نہ رہنے دیا جائے جس سے مرزا یار کی طاقت کو، پوزیشن کو، مقام و مرتبے کو کسی بھی طرح کا کوئی چیلنج درپیش ہو۔ دوسرے مصرعے میں کراڑ کی دکان کے جلنے کی آرزو کی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہاں پر ہر وقت روشنی ہوتی ہے۔ روشنی تعلیم اور عقل و شعور کی علامت ہے۔جس کی موجودگی میں لوگ خود بھی آگہی حاصل کرتے ہیں‘ ان کو صحیح راستہ ڈھونڈنے میں بھی آسانی ہوتی ہے‘ روشنی کے اردگرد اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں اور اس طرح ایک زندہ ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔اگر مرزا یار اور محبوب کے گھر کے درمیانی راستے میں روشنی ہو گی تو پھر مرزا یار تو محبوب کی سیج تک نہیں پہنچ پائے گا یا پھر اسے اپنا مقصد حاصل کرنے میں بہت مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہر طرف اندھیرا طاری کر دیا جائے اور دیا یا چراغ گل کر کے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جہاں پر چراغ رکھا گیا ہے یعنی کراڑ کی دکان تو اس کو ہی آگ لگا کر جلا دیا جائے یعنی روشنی کے منبع کا ہی قلع قمع کر دیا جائے تاکہ نہ چراغ ہو گا نہ روشنی پیدا ہو گی نہ راستہ سجھائی دے گا نہ کوئی زندگی کی علامت باقی بچے گی ۔اس طرح کا ماحول پیدا کر دیا جائے جیسا کہ رات کے وقت کسی قبرستان میں ہوتا ہے تاکہ مرزا یار کا راستہ مکمل طور پر ہموار ہو جائے گوانڈنوں والا مصرعہ محبوب کے اردگرد ممکنہ خطرات کے مکمل خاتمے کی بات کرتا ہے۔ شاعر کی خواہش ہے کہ جب تمام راستے ہموار ہونے اور خطرات سے پاک ہونے کے بعد مرزا یار محبوب کے گھر تک پہنچ جائے تو وہاں بھی اس طرح کا ماحول ہو کہ محبوب کی پانچ سات پڑوسنیں تو ویسے ہی مر کھپ جائیں اور جو باقی بچیں وہ بھی اس طرح بیمار ہو جائیں کہ اپنے دروازے یا دیوار کو اوپر سے جھانکنے کے قابل نہ رہیں اور نہ ہی دیکھ سکیں کہ مرزا یار محبوب کی ملاقات کو آیا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی پریشانی شرمندگی یا رکاوٹ کا باعث بن سکیں۔ مطلب یہ کہ مرزا یار کی محبوب کے گھر آمد سے قبل ہی راستے میں تمام طرح کے اندرونی و بیرونی خطرات کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔ آخری مصرعے میں اس ماحول کی عکاسی کی گئی ہے جو ان تمام اقدامات سے پیدا ہو گا۔ یعنی وہ گلیاں وہ راستے جن سے ہو کر مرزا یار نے محبوب کے گھر تک آنا ہے وہ مکمل طور پر غیر آباد خاموش اور تاریک ہو جائیں ، اس طرح ایسا ماحول پیدا ہو جائے گا جو مرزا یار اور اس کے محبوب کے درمیان ملاقات کو زیادہ اطمینان بخش، فرحت انگیز، پرسکون اور محفوظ بنا دے گا اور اگر یہ ملاقات ہو جائے گی تو اس کے نتیجے میں ہر طرف خوشی و مسرت کا دور دورہ ہو گا۔ جس سے پوری کائنات جھوم اٹھے گی اور اس کے ثمرات اردگرد کے ماحول اور تمام چرند و پرند تک پہنچیں گے اور ایسا ہو گا تو اس کا ثواب ان تک بھی پہنچے گا، جو فقیر کی کتی کی آواز خاموش کرنے یا اس کو مارنے ،کراڑ کی دکان پر چلنے والے دیے کو گل کرنے، یا اس دکان کو جلانے یا پڑوسیوں کو مارنے یا ان کو بیمار کر کے گلیوں کو سنسان کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ کالم کے آخر میں یہ ضروری ہے کہ تمام قوم کو میاں نواز شریف کی آمد کی مبارکباد دی جائے کیونکہ ان کے آنے سے ملک میں وہ انقلاب آئے گا جس کے لئے شریف خاندان اپنا کاروبار قربان کر کے گزشتہ چار دھائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے محض پاکستانی غریب عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر کوشش کر رہا ہے ۔میاں صاحب اپنا تمام تجربہ بروئے کار لا کر پاکستانی معیشت کو صحیح راستے پر گامزن کر دیں گے۔ یہاں برآمدات بڑھیں گی، صنعت کا بازار گرم ہو گا، تجارت عام ہو گی۔ نوکریاں سب کو میسر ہوں گی۔پاکستان ایشیا کا معاشی ٹائیگر بنے گا۔ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یار لوگ قیدی نمبر 804جیسے شرپسند عناصر کو موقع نہیں دیں گے کہ وہ میاں صاحب کے قوم کی خدمت کے مشن کے راستے میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ کا باعث بن سکیں۔