تاریخ نو مئی تھی اور کالم لکھنے کے لیے ضروری ماحول میسر تھا۔ چائے کا بھاپ اڑاتا کپ میرے سامنے تھا اور کھڑکیوں سے پردے ہٹے ہوئے تھے باہر کا سر سبز منظر کمرے کو بھر رہا تھا۔ مئی کا ایک گرم دن ،تیز ہوتی ہوئی دھوپ کھڑکیوں سے باہر پھیلا سبزہ یہ سب میرے لیے لکھنے کے محرک تھے۔ میں بند کمرے میں بیٹھ کے کبھی نہیں لکھتی مجھے ایسا لگتا ہے کہ بند کمرے میں میری سوچ کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ سچ کہوں تو مجھے کسی اور موضوع پر کالم لکھنا تھا جس کا ہوم ورک مکمل تھا۔ لیکن میں خود حیران ہوئی کہ میری سوچ کے پرندے کیسے گزشتہ برس کے نو مئی کی طرف اڑتے چلے گئے۔ جب ایک سال پیشتر ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی میں ہمارا بہت کچھ جل کر راکھ ہوا۔ تیر سارے کڑی کمان میں تھے ہم کہ اک شہرِ بے امان میں تھے رزم آرائی اب کے گھر میں رہی حادثے یہ کہاں گمان میں تھے زرد چہروں پہ کھوکھلی آنکھیں جیسے بجھتے دیے مکان میں تھے آگ بھڑکی تو جل کے راکھ ہوئے خواب ایسے بھی شہرِ جان میں تھے بدترین ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں صرف اینٹ اور سیمنٹ سے بنی ہوئی عمارتیں ہی نقصان زد نہیں ہوئیں، بلکہ اجتماعی امید اور قومی اقدار کی سطح پر بہت کچھ ٹوٹا اور چکنا چور ہوا۔نو مئی کا سانحہ ایک پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر عروج حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے لیے مہلک ثابت ہوا۔نو مئی 2023ء کا وہ خوفناک دن جب آتا ہے تو مجھے اس شعر پر یہ یقین ہونے لگتا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔نو مئی تک آنے کے لیے باقاعدہ ان کی ذہن سازی کی گئی، ان کے سوچ کے زاویوں کو بدلا گیا۔یہاں تک ہی نہیں بلکہ ایسا ونگ تیار کیا گیا جو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے کرے ۔ سیاسی عمل کے اندر اختلافات، سیاسی لیڈران کی گرفتاریاں، عدالتوں میں پیشیاں اور قانونی راستہ اختیار کر کے اپنی صفائی اور سچائی کو ثابت کرنا، سیاسی اور جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں ہم ایسا دیکھتے ہیں۔سیاسی لیڈران کا جیل جانا ان کی سیاسی بلوغت اور ان کی سیاسی شخصیت کی مضبوطی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جو سیاسی جماعت سے زیادہ ایک پریشر گروپ اور ایک کلٹ کے طور پر پاکستان کی سیاست میں موجود رہی حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی ایک نو مئی سے دوچار ہوئی۔ الطاف حسین کی ایک کال پر شہر کا بند ہو جانا اور تعلیمی اداروں کا لاک ڈاؤن ہونا برسوں کراچی شہر کا معمول رہا۔سیاست میں یہ طرز عمل بالاخر ایم کیو ایم کے ٹوٹنے کا باعث بنا۔ میں تو اس پر بھی احتجاج ریکارڈ کرواتی ہوں کہ ہمارے ملک کی اصل مقتدرہ جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں اس نے ایم کیو ایم کی اس پر تشدد سیاست اور ان کے کلٹ ازم کو کیوں کئی برسوں تک برداشت کیا۔لوگوں کی بوری بند لاشوں پر مبنی سیاست کو برداشت کیوں کیا؟ ریڈ لائن کو ری ڈیفائن کرنے کی ضرورت تھی۔ ایک انسانی جان بھی اگر سیاسی احتجاج کی نذر ہو جائے تو یہی ریڈ لائن ہے۔ہماری ریڈ لائن صرف پاکستان کے دفاعی ادارے نہیں ہونے چاہئیں، ہمیں ریڈ لائن کو پھر سے ڈیفائن کرنا چاہیے کہ سیاسی احتجاج میں کیا چیزیں بالکل ناقابل برداشت ہوں گی تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے احتجاج کے بارے میں نہ سوچے۔ ریاستی سطح پر ایسے پرتشدد رویوں کے لیے زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے۔نو مئی پر بہت پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں کافی تعداد نوجوانوں کی تھی اور ایسے نوجوان بھی جو بہت تعلیم یافتہ تھے،جنہوں نے اپنا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا۔ ابھی متعدد افراد جیلوں میں موجود ہیں۔گرفتار ہونے والے ان سیاسی کارکنوں کے گھر والے جس پریشانی اور مصیبت سے گزر رہے ہیں یہ تکلیف وہی جانتے ہیں۔سیاسی لیڈر کا کیا ہے آج نہیں تو کل جیل سے باہر آ جائے گا۔لیکن افسوس ان سیاسی کارکنوں پر اور ایسے سیاسی کلچر پر ہوتا ہے ۔ نو مئی 2023ء کو ہم سب کا نقصان ہوا ان کا بھی نقصان ہوا جو پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں اور اسے ملک کے لیے امید سمجھتے ہیں اور ان کا بھی نقصان ہوا جو پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھتے ہیں ،کیونکہ ایک دائرے کے اندر ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔وہ دائرہ ہماری اجتماعی وابستگی کا ہے پاکستان سے محبت اداروں پر اعتماد اور احترام کا دائرہ ۔سیاست ہو یا زندگی اختلاف رائے کو برداشت کرنا ہی کامیابی ہے ۔ افسوس ہوتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت بہتر پاکستان کی امید لے کر اٹھی، پاکستان کی روایتی سیاست کو ناپسند کرنے والے نوجوانوں کو اور عام لوگوں کو سیاسی عمل کے ساتھ جوڑا ،کامیابی اور عروج کی منزلیں طے کرتی ہوئی شدت پسند رویوں کی وجہ سے نو مئی کی بند گلی کی طرف موڑ دی گئی۔ کیا ان کے ذہن میں یہ خیال کبھی آتا ہے کہ برسوں کی محنت سے بنائی ہوئی سیاسی پارٹی کو اس نہج پر پہنچانے میں خود ان کے اپنے شدت پسند رویوں کا کتنا ہاتھ ہے ؟منیر نیازی کا یہ شعر کس قدر بر محل ہے۔ مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیر عذاب مجھ پہ نہیں حرف مدعا کے سوا! ٭٭٭٭