وعدوں کی کوکھ سے امیدیں جنم لیتی ہیں۔پاکستان میں انتخابات دعووں اور وعدوں کا موسم ہوتا ہے۔ الیکشن کے بعد پاکستانی وعدے وفا ہونیکا انتظار کرنے لگتے ہیں یہاں تک کے پھر الیکشن آجاتے ہیں اور پاکستانی پھر وعدوں کے سیراب کی طرف بھاگنے لگتے ہیں۔ پاکستان کے انتخابات کے بارے میں ہی شایدالطاف حسین حالی نے کہا ہے۔ وہ امید کیا جس کی ہو انتہا /وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا پنجاب میں پہلی خاتوں وزیراعلیٰ مریم نواز کے اسمبلی میں خطاب اور عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کے عزم پر امجد صدیقی نے ایک کھلا خط لکھا ۔: پاکستان میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے خواتین اور دوسر ے مذاہب کی خصوصی نشستوں کے بارے میں اعلان ہوا توایک بار دل میں کسک اٹھی کاش ان میں ہمارا بھی ذکر ہوتا ۔ اس کے بعد چھوٹی بڑی جماعتوں نے اپنے منشور عوام کے سامنے رکھے مگر وہ نظر نہ آیا جس کی مجھے تلاش تھی۔ آخری جو منشور آیا وہ مسلم لیگ نون کا تھا امید تھی کہ ساڑھے تین کروڑ سپیشل پرسنز کے حقوق کا کسی منشور میں ذکر نہیںیقیناً اس میں ضرور ہوگا مگر مایوسی ہوئی گزشتہ روز پنجاب میں بننے والی پہلی خاتون ویزاعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ کا صوبائی اسمبلی میں افتتاحی خطاب سنا جیسے جیسے وہ عوام کی ضروریات، ان کی تکالیف اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کا اعلان کر رہی تھی تو امید تھی کہ ابھی وہ ان ساڑھے تین کروڑ معذوروں کے بارے میں کچھ بولیں گی مگرساڑھے تین کروڑ معذوروں کی امید پوری نہ ہوئی امید کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سب سے زیادہ رحم دلی، انسانیت ،احساس اور مدد کا جذبہ ہمیشہ خواتین میںہوتا ہے۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے 76 سال گزرنے کے بعد بھی معذور افراد کا مستقبل تاریک ہے آج بھی آپ معذور افراد کو سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتے ہی دیکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے معذور نہیں ہوتا بلکہ پیدائشی طور پر یا کسی حادثے کی وجہ سے معذوری اس کا مقدر بنتی ہے۔کسی محرومی یا معذوری کے شکار شخص کو ہمارا معاشرہ عضومعطل کی طرح کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔ ان کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگوں کی تلخ باتیں اور سخت جملے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ معذوری کے طعنے سننے پڑتے ہیں بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ معذور افراد پر خدا کا عذاب آیا ہے یا یہ اپنے کسی گناہ یا جرم کی وجہ سے اس حالت میں ہے۔ کوئی شخص ان کے ساتھ پیار بھرے دو بول نہیں بولتا کوئی ان کی دل جوئی نہیں کرتا۔ معذوروں کے ساتھ امتیازی سلوک ان کے گھر سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے سے ہوتا ہوا حکومتی سطح تک جاتا ہے۔ ان کو گھر میں بھی قبول نہیں کیا جاتا۔ان کو ناکارہ قرار دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ اب زندگی میں کچھ نہیں کر سکتے ۔انہوں نے بس بھیک مانگنی ہیمعذور کو ابتدا سے ہی طعنے ملنا شروع ہو جاتے ہیں خود گھر والے اسے وبال جان اور مصیبت سمجھنے لگتے ہیں اسے یا تو بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر اسے گھر کے کونے میں پھینک کر اس کی موت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی رویہ ہمارے اندر اجتماعی طور پر اور حکومتی سطح پر بھی موجود ہے کوئی بھی حکومتی ادارہ ان کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔ اگر کسی معذور کو اپنے کسی مسئلے کے لیے کسی سرکاری دفتر یا ادارے میں جانا پڑ جائے تو اس کے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں کہیں بھی معذوروں کے لیے بنیادی سہولیات موجود نہیں، کسی دفتر کسی ادارے کسی سرکاری یا پرائیویٹ بلڈنگ میں ویل چیئر کے لیے راستے موجود نہیں ہیں اگر ہے بھی تو وہ ناقابل استعمال یا اس کے اگے رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔معذور لوگ آخر جائیں تو کہاں جائیں، گھر والے انہیں قبول نہیں کرتے، میں نے گزشتہ 20 سال میں نہ جانے کتنی بار صاحب اقتدار سے ملنے کی کوشش کی تاکہ ان کے آگے پاکستان میں بسنے والے 15 فیصد معذور لوگوں کے مسائل کا رونا رو سکوں مگر نہ تو ان کو کوئی ملنے دیتا ہے اور نہ ہی وہ خود ملنا چاہتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ہمیں دھتکار دیتا ہے، حکومت بے حس ہو چکی ہے، تو پھر کون ہے جو انہیں زندہ رہنے کا حق دے سکے۔ گزشتہ مہینے سات دن کے لیے عرب امارات گیا جہاں میں نے دیکھا مجھ جیسے لوگوں کو وی وی آئی پی سے بڑھ کر پروٹوکول دیا جاتا ہے انہیں سر پر بٹھایا جاتا ہے وہ پورے ملک میں کہیں بھی جانا چاہیں کچھ بھی کرنا چاہیں عام انسانوں سے کہیں زیادہ سہولیات میسر ہیں۔ سرکاری کاموں کے لیے ان کو دفتروں کے دھکے نہیں کھانے پڑتے بلکہ خود سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ ادارے جن میں بینک بھی شامل ہیں ان کے گھر پہنچ سہولیات مہیا کرتے ہیں انہیں پیپل آف ڈیٹرمینیشن کہا جاتا ہے۔ مشرف دور حکومت میں مجھے سینیٹر بنانے کی پیشکش کی گئی مگر میں نے یہ سوچ کر انکار کر دیا تھا کہ ہمارے ملک کے تمام سیاستدان صرف کرسی کے لیے لڑتے ہیں اور اللہ تعالی نے مجھے پکی کرسی دی ہوئی ہے مگراب سوچتا ہوں کہ وہ میری غلطی تھی جہاں خواتین اور اقلیتوں کو اسمبلی میں سیٹیں ملتی ہیں وہاں پر ساڑھے تین کروڑ اسپیشل پرسن کا بھی حق بنتا ہے۔کاش میں اس وقت تین کروڑ روپے پارٹی فنڈ دے کر یہ آفر قبول کر لیتا تو یہ حالات نہ ہوتے اور اب تک اسپیشل پرسن کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں معقول نشستیں ہوتی ہیں جہاں پر وہ اپنے حق کی آواز اٹھا سکتے۔پنجاب بھر میں ابھی تک کوئی بھی ایسا ضرورت کے مطابق پیرا پلیجک سنٹر اور ری ہیبلیٹیشن سینٹرنہیں جہاں ایک چھت کے نیچے معذور افراد کی معذوری کو کم سے کم کیا جا سکے اگر پنجاب حکومت ان کی بحالی پر توجہ دے تو کم از کم 70 فیصد معذور افراد کو برسر روزگار کر کے معاشرے میں باعزت مقام دلایا جا سکتا ہے۔