نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمااسلام کے ہمراہ بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اس عزم اور وعدے پر سنبھالیں کہ وہ دودھ وشہد کی نہریں بہا دیں گے۔لیڈران کرام نے وعدہ کیا کہ وہ پٹرول بم کرائیں گے اور نہ ڈالر کو ایک پیسہ مہنگا ہونے دیں گے۔ لیکن اب ٹیلی ویژن پر وہ تیل، بجلی، گیس اور اشیاء صرف کے نرخوں میں اضافے کی جوازیت پیش کرتے ہیں تو ہماری طرح کے طبقے کا دم ہی نکل جاتاہے ۔ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی اتحادی حکومت نے پاکستان کی تاریخ مہنگائی کے ستر سالہ ریکارڈ توڑ دیئے۔ماضی کی حکومتوں نے قرض لیا یا ترقیاتی بجٹ میںکٹوتی کی لیکن پاکستانیوں کے چولہے نہیں بجھنے دیئے۔ ان کے منہ کا نوالہ نہیں چھینا۔ مہنگائی کا عالمی ریکارڈ اور وہ بھی اس قدر سبک رفتاری سے محض چھ ہفتوں میں موجودہ حکومت نے مکمل کیا۔ یقینا اس کامیابی پر عوام اسے داد دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کہاں گئی آپ کی تربیت یافتہ ٹیم اور ماہرین جو سرشام ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ہر پیچیدہ مسئلہ کا حل پیش کیا کرتے تھے۔حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے فرمایا:بھکاریوں کی مرضی نہیں چلتی۔ ایک اور بزرجمہر کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس زہر کھانے کوبھی پیسہ نہیں۔ معیشت کے استاد مفتاح اسماعیل جن کے درجنوں بیانات سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں کہ بجلی اور تیل کی قیمت میں ایک پائی کا اضافہ بھی نہیں کیا جائے گا بلکہ اگر انہیں حکومت مل جائے تو وہ عوام کو ریلیف دیں گے۔ اب مشکل فیصلے کرنے کا کریڈٹ مانگ رہے ہیں۔ تیل کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کیا۔ عوام پر بجلی اور پٹرول بم گرایا اور کہتے ہیں کہ یہ مشکل فیصلہ ہیں ۔ عوام کو ان فیصلوں پر ڈھول بجانا چاہیے۔ دو وقت کی روٹی اور سرچھپانے کو سائبان تک انہیں دستیاب نہیں۔پانچ فی صد کے پاس سرے سے کوئی روزگار ہی نہیں۔ ہزار میں سے 65 بچے پانچ برس کی عمر سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں مناسب خوراک اور ادویات تک رسائی نہیں۔افسوس! موجودہ حکومت نے اس طبقے کے لیے زندہ رہنے کا ہر امکان ختم کردیا ۔انہیں کیا فرق پڑتاہے۔حکمران اشرافیہ نے زندگی میں دکھ، درد یا بھوک دیکھی ہی نہیں۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر جنم لیااور تخت نشین ہوگئے۔انہیں کیا معلوم کہ مفلسوں کے کھیتوں میں بھوک کے سوا اور کچھ نہیں اگتا۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ جو بھی حکومت الیکشن جیت کرآتی ہے،اسے تین سال سے زیادہ چلنے ہی نہیںد یا جاتا۔الیکشن کمیشن کے نتائج کو شکست سے دوچار ہونے والی جماعتیں تسلیم نہیں کرتیں۔سادہ الفاظ میںالیکشن کمیشن کوئی ایسا شفاف نظام وضع کرنے میں ناکام ہوچکا ہے، جو تمام جماعتوں کے تحفظات اور خدشات کا ازالہ کرسکتاہو۔چنانچہ شکست سے دوچار ہونے والی جماعتیں مسلسل حکومت گرانے کی سازشوں میں جت جاتی ہیں۔ ایک زمانے میں صدرپاکستان کے پاس حکومت کو چلتا کرنے کا اختیار ہوتاتھا۔چنانچہ تین منتخب حکومتوں کوصدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے کرپشن کا الزام لگا کر گھر بھیجا۔حالیہ دنوں اس ڈرامہ میں عدم اعتما د کا ٹوسٹ آیا۔اس کشاکش میںسارے قومی ادارے متنازعہ ہوگئے۔بقول مجید لاہوری کے ؎ یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔ نون لیگ اور پی پی پی کا خیال ہوگا کہ وہ پاکستان کی کشتی کو منجھدار سے نکال لیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکیں گی، رفتہ رفتہ اپنے حامیوں اور ہمدردوں کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بننے گی۔ پاکستان تحریک انصاف اس ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جو مقبول بھی ہے اور اس کی جڑیں عوام میں مضبوط ہیں۔بقول ابن خلدون کے اسے سیاسی عصبیت حاصل ہوچکی ہے۔ اسے سیاسی نظام سے نکال باہر کرنے والوں نے صرف غلطی نہیں کی بلکہ بہت بڑا بلنڈر کیا ہے۔ اگلے عام الیکشن میں پی ٹی آئی کو سیاسی نظام سے باہر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی کرائی جائے ۔ دھاندلی سے بننے والی حکومت کی بنیادیں کمزور ہوں گی۔ کوئی ساکھ ہوگی اور نہ وہ اپنی رٹ منواسکے گی۔ علاوہ ازیں اسے مسلسل احتجاجی تحریک اور نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔لہٰذا پرنالہ جہاں بہتاتھا وہاں ہی بہتارہے گا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں تجویز پیش کی کہ وزیراعظم قومی سطح پر ڈائیلاگ کا انعقاد کرائیں،جس میں سیاسی لیڈرشپ مل بیٹھ کر فیصلہ کرے کہ ملک کو کیسے اور کس سمت میں چلنا چاہیے۔ تحریک انصاف کی طرف سے بھی عندیہ دیا جاچکا ہے کہ وہ الیکشن کے اعلان کے بعد اس طرح کی مشاورت کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔ یہ ڈائیلاگ اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت نے نیب کے اختیارات سلب کرلیے ہیں۔ بیرون ملک آباد نوے لاکھ پاکستانیوں سے ووٹ کا حق چھین لیا جنہوں نے رواں مالی سال میں 32 ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھیج کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی مخالف طرز عمل پر عمران خان اپنے تحفظات کا باربار اظہار کرچکے ہیں۔الیکشن کمیشن کی غیر جانبدارانہ ساکھ کی بحالی پر بھی مذاکرات ہونے چاہیں۔ اس ڈائیلاگ میں یہ بھی طے پانا چاہیے کہ کس طرح حکومت ،پارلیمنٹ ، عدلیہ اور سلامتی سے متعلقہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کردار ادا کریں گے۔ اجتماعی دانش بیروکار لاتے ہوئے ایسا نظام کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جو سیاسی استحکام کی ضمانت ہو۔ سیاسی استحکام کے بنا ملک میںقرارآئے گا اور نہ غیر ملکی سرمایہ کاری۔حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر سرمایاکاروں نے بیرون ملک پہلے ہی اپنا کاروبار منتقل کردیا ہے۔اس لیے کوئی ایسا نظام وضع کرنااشد ضروری ہے تاکہ الیکشن کے بعد اگلے پانچ برسوں تک سیاسی استحکام برقرار رہے تاکہ عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر بھی توجہ دی جاسکے۔