ایک سیاست دان کو گولف کھیلنے کا شوق آ گیا۔ گرائونڈ میں پہنچے تو ایک پرانے واقف کرنل صاحب وہاں کھڑے تھے۔ سلام دعا کے بعد سیاست دان نے کھیل شروع کی۔ پہلی شاٹ لگائی اور نعرہ لگایا ، کرنل صاحب کیسی رہی۔ کرنل صاحب نے کہا بہت اچھی۔سیاست دان نے دوسری شاٹ لگائی اور پھر پوچھا، کرنل صاحب کیسی رہی ۔ کرنل صاحب نے اس دفعہ اس طرف دیکھے بغیر ہی کہہ دیا۔ٹھیک تھی۔ سیاست دان نے تیسری شاٹ لگائی اور پھر نعرہ لگایا، کرنل صاحب اب کیسی رہی۔ کرنل صاحب ناراض ہو گئے۔ کہنے لگے ، بار بار ایسی شاٹس پر رائے لینی اور تعریف کرانی تھی تو اپنے واہ واہ کرنے والے ساتھ لانے تھے۔ مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو۔یہ اصل فرق ہے سیاسی اور فوجی مزاج میں۔ فوج کا اپنا ایک نظم ہوتا ہے ۔ وہ غیر ضروری تعریف نہ سنتے ہیں اور نہ کرتے ہیں۔ ان کی ہر چیز منطق کی پابند ہوتی ہے۔ وہ فضولیات کے قائل نہیں ہوتے۔سیاست کا کوئی نظم نہیں ہوتا۔ سیاسی رہنما غیر ضروری اور غلط تعریف کے عادی ہوتے ہیں اور اپنی کسی احمقانہ حرکت کی بھی تعریف سن کر خوش ہوتے ہیں۔یہی دونوں کے مزاج کا فرق ہے ۔آج جب سیاست کے کچھ مہرے دعویٰ کرتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ ان کی پشت پناہی کر رہی ہے تو مجھے یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ ان کے مزاج میں جو فرق ہے ، وہ انہیں کیسے ایک پیج پر لا سکتا ہے۔لیکن دعویٰ کرنے اور عوام کو بیوقوف بنانے میں کوئی حرج نہیں۔سیاست اس ملک میں شاید اسی کا نام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمارا ہر حکمران جو اقتدار میں آتا ہے تو اس کے اثاثہ جات معمولی ہوتے ہیں لیکن دو چار سال گزارنے کے بعد جب وہ حکومت سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے اثاثہ جات کی مالیت کا اندازہ اسے خود بھی نہیں ہوتا۔اس کے تعلقات والے لوگ بھی اربوں میں کھیلتے ہیں۔ یہ اس ملک کا المیہ ہے۔اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا احتساب کا ادارہ لوگوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ درجنوں کے حساب سے وہ والیوم تیار کرتا ہے جو ان کے بارے الزامات اور ان کے ثبوتوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ عدلیہ کا سب سے بڑا ادارہ ملزمان سزا دیتا ہے۔ مگر ایک ہی دن میںایک سزا دینے والوں سے جونئیر جج سب کیسوں اڑا دیتا ہے ۔ کہ سب کچھ جعلی تھا۔ کیس بنائے گئے تھے ۔ ملزمان تو معصوم تھے اور ہیں۔میرے جیسے عام آدمی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ درجنوں الزامات کے والیوم بنانے پر جو سرمایہ خرچ ہوا اس کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے۔ دیانتدار جج صاحب کو کیا کیا کشف ہوا کہ ان والیوم کا مطالعہ کئے بغیر اس نے اتنا شاندار فیصلہ دے دیا۔ دیانتداری بڑی عجیب چیز ہے ۔ یہ لوگوں کے طرز عمل اور رہن سہن سے نظر آتی ہے۔ اس کے لئے عدالتوں سے صفائی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ مجھے اس سلسلے میں ایک واقعہ یاد آیا۔ بھارت کا ایک صحافی کہیں سے گزر رہا تھا۔ کہ اس نے دیکھا ایک مالک مکان نے کرایہ بر وقت ادا نہ کرنے پر اپنے کرایہ دار کا سامان اٹھا کر سڑک پر رکھ ردیاتھا۔کرایہ دار کوئی شریف آدمی لگتا تھا جو چپ چاپ ایک طرف کھڑا تھا اور کچھ محلے دار مالک مکان کو سمجھا رہے تھے کہ آپ کا کرایہ دار ایک شریف آدمی ہے ۔ محلے میں جب سے رہ رہا ہے اس نے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ وہ کہہ رہا ہے کہ اس کی پنشن اگلے تین چار روز میں آ جائے گی تو مہربانی سے اس کا اعتبار کریں اور اسے تین چار روز دے دیں۔کل چورہ ہزار (14000) روپے کرایہ تھا جو مکان مالک فوراً لینا چاہتا تھا۔صحافی نے اسے ایک چٹ پٹی خبر جانتے ہوئے ۔ موقع کی کچھ تصویریں لیں۔ سامان ، کرایہ دار اور مالک مکان ، سبھی ان تصویروں میں بہت نمایاں تھے۔دفتر آکر اس نے خبر تیار کی اور ایڈیٹر کی میز پر رکھ دی۔ تھوڑی دیر بعد ایڈیٹر نے وہ خبر دیکھی اور رپورٹر کو آواز دی کہ یہ کہاں کا واقعہ ہے۔ رپورٹر نے جگہ بتائی تو پوچھنے لگا کہ اس کرایہ دار کو تم نے پہچانا کہ کون ہیں۔ رپورٹر نے نفی میں سر ہلایا۔ ایڈیٹر نے کہا آئو وہاں چلتے اور ان سے ملتے اور کچھ مدد بھی کرتے ہیں۔ ویسے تمہیں بتا دوں کہ یہ ہمارے بہت بڑے لیڈر ہیں ۔ ہمارے سابق منسٹرشاستری جی۔جی ہاں لال بہادر شاستری۔گاندھی کا سچا پیروکار اور انتہائی درویش شخص۔ لال بہادر شاستری تقسیم سے پہلے اپنے صوبے ،جس کا نام آج اتر پردیش ہے، سے دو مرتبہ 1937 اور 1946 میں صوبے کی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان کا شمار کانگرس کے بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے صوبے کے وزیر برائے امور دا،خلہ، وزیر ریلوے اور وزیر ٹرانسپورٹ رہے۔یہ واقع اﷲباد میں 1961میں پیش آیا۔ اس واقع کے چند دن بعد لال بہادر شاستری بھارت کے چھٹے وزیر داخلہ بنا دئیے گئے۔ وہ 1963 تک بھارت کے وزیر داخلہ رہے۔ نہرو کی بیماری کے سبب انہیں بھارت کا وزیر بے محکمہ بنا دیا گیا اور جون 1964 میں نہرو کی وفات پر انہیں بھارت کا وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا۔جنوری 1966 میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ تاشقند معاہدہ کیا، وہی معاہدہ جس سے ذوالفقار علی بھٹو نے شہرت پائی مگر وہ بلی جو قوم کو دکھاتے رہے کبھی تھیلے سے باہر نہ آئی۔ اسی رات معاہدے کے بعد تاشقند میں لال بہادر شاستری وفات پا گئے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کیا لوگ تھے۔ ان کے حصے میں سوائے عزت کے کچھ نہیں آیا۔ مگر اس عزت کا وزن اس قدر زیادہ ہے کہ دنیا کی بہت سی چیزیں مل کر بھی اس وزن میں کمی نہیں کر سکتیں۔ ایک کرایے کا گھر ، وہ بھی ایسا کہ جہاں سے مالک مکان سامان اٹھا کر باہر پھینک رہا ہے۔ کوئی ایون فیلڈ نہیں۔ کوئی بڑی اور شاندار گاڑی نہیں۔ انتہائی سادہ زندگی لیکن لوگ ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو برا لگے گا اس لئے کہ مودی ہمارا دشمن سہی مگر وہ اس کا اوڑھنا بچھونا اس کا ملک ہے۔ اس کی نہ اپنی جائداد بیرون ملک ہے نہ وہ آسانی سے کسی کو لوٹ مار سے دولت باہر لے جانے دیتا ہے۔ دونوں ملکوں کی معیشت کا فرق بھی مودی جیسے لیڈروں کی وجہ سے ہے۔ کاش ہم بھی کوئی ایسا لیڈر پا لیں تو ہمارے حالات دنوں میں بدل جائیں۔