کسی بھی قوم کا مستقبل اسکی آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان ہاتھوں میں اپنا مستقبل سونپنے سے پہلے انہیں مضبوط اور ہنرمند بنانا ان لوگوں کا کام ہے جو ان کی حفاظت ، تربیت ، تعلیم اور شخصیت سازی پہ معمور ہوتے ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوان نسل کثیر تعداد میں موجود ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں 15 سے 30 سال تک کے نوجوان شامل ہیں۔ ایشیا میں افغانستان کے بعد سب سے زیادہ نوجوان پاکستان میں ہیں گویا ہمارے پاس وہ خزانہ موجود ہے جسکی بہترین پرورش اور دیکھ بھال کرکے ہم اپنے وطن کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔ ہماری تمام امیدیں انہی بچوں اور نوجوانوں سے وابستہ ہیں لیکن یہ امیدیں مدھم ہو جاتی ہیں جب ہم آئے روز اخبارات و رسائل اور میڈیا پر ایسی خبریں سنتے ہیں کہ فلاں حادثے میں اتنے بچے اور اتنے نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پاکستان میں روانہ ہونے والے ٹریفک حادثات میں کثیر تعداد کم عمر بچے، بچیوں اور نوجوانوں کی ہوتی ہے جنکی اچانک حادثاتی موت نا صرف انکے والدین کی زندگی کو تاریک بنا دیتی ہے بلکہ وطن عزیز کے مستقبل پہ بھی سوالیہ نشان چھوڑ دیتی ہے کہ آخر ہمارے نظام میں ایسی کونسی خرابیاں شامل ہیں جنکی بناء پہ ٹریفک حادثات روانہ کی بنیاد پہ ہزاروں لوگوں کی جان نگل لیتے ہیں اور سینکڑوں افراد معذوری کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہاں میرے خیال میں سب سے زیادہ کوتاہی اور لاپرواہی کا مظاہرہ بڑوں کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اپنی حفاظت کرنا نہیں سکھاتے۔ ہمارا تربیت کا انداز اور تعلیمی نظام ایسا ہے کہ بچے بہادر اور نڈر ہونے کی بجائے ڈرپوک اور کمزور ہوتے ہیں۔ ہم انکو زیادہ سے زیادہ یہ بتا دیتے ہیں کہ سڑک پار کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھنا ضروری ہے اسکے علاوہ بچوں اور نوجوانوں کو سڑک پہ چلتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاظت کرنے کی کوئی تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی۔ میرا آجکا موضوع خصوصی طور پہ بچوں کے حوالے سے ہے کہ گھروں سے لیکر تعلیمی اداروں تک ایسے کونسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ یہ نوجوان نسل جیسے ہی تنہا سڑک پہ نکلیں تو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے بھی مددگار اور محافظ ہوں۔ ٹریفک حادثات میں بچوں کی اموات کی کئی وجوہات ہیں جن میں ڈرائیورز کی غفلت ، سکول وین / رکشہ والوں کی تیزرفتاری، بچوں کا بھاگ کے سڑک پار کرنا، مصروف سڑکوں اور گلیوں میں بھاگ دوڑ کرنا اور کرکٹ وغیرہ کھیلنا شامل ہیں۔ نیز وہ کم عمر نوجوان جن کے پاس ڈرائیورنگ لائسینس نہیں ہوتا انکا گاڑی چلانا اور ون ویلنگ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام عوامل پہ اگر کنٹرول کیا جائے اور والدین اور سرپرست ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحیح قوانین پر عمل کریں تو ہمارے بچے ٹریفک حادثات سے بچ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو پرائمری سے لے کر میٹرک تک تمام درجات میں ٹریفک قوانین کی تعلیم اور اس سے آگاہی کو لازمی شامل کیا جائے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں بچوں کو ابتدا سے ہی سڑک پار کرنے سے متعلق ضروری قوانین سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ سڑک پہ پیدل چلتے ہوئے اپنی لائن میں رہیں، مصروف شاہراہ پر، سڑکوں اور گلیوں میں بھاگ دوڑ نہ کریں۔ بچے کو کم عمری سے ہی ہیلمٹ کا استعمال سکھایا جائے اب چاہے وہ اپنی ٹرائی سائیکل چلائیں یا بائیسکل ہر صورت ہیلمٹ پہنیں۔ نیز والدین کم عمری میں انہیں موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے کی اجازت ہرگز نہ دیں۔ بچوں کو صرف محفوظ مقامات پہ سائیکل چلانے اور کھیلنے کی اجازت دی جائے۔ پیدل چلتے ہوئے والدین بچوں کا ہاتھ تھامیں اور انہیں سڑک کے اس جانب ہرگز نہ چلائیں جس جانب ٹریفک کی روانی ہو۔ موٹر سائیکل سوار اپنے کم سن بچوں کو ہرگز پیچھے نہ بٹھائیں۔ اکثر والدین چھوٹے بچوں کو پیچھے تنہا بٹھا دیتے ہیں اور وہ توازن کھونے کی وجہ سے یا چلتی بائیک پر نیند آجانے سے گر جاتے ہیں۔ نیز گاڑی چلاتے ہوتے سیٹ بیلٹ کا استعمال لازمی کریں۔ ڈرائیور کیساتھ گاڑی میں بیٹھے باقی افراد بھی سیٹ بیلٹ ضرور باندھیں۔ بچوں کو آگاہی فراہم کی جائے کہ سڑک پار کرتے ہوئے صرف زیبرا کراسنگ کا استعمال کریں۔ ہم عموماً یہ دیکھتے ہیں کہ کسی مصروف شاہراہ پر اسکول ، کالج اور اکیڈمی وغیرہ میں ایک ہی وقت میں چھٹی ہونے پر سکول کے طالبعلموں کا رش یکدم بڑھ جاتا ہے۔ سکول کالج کی وین ، بسیں، رکشہ ڈرائیوروں کیساتھ موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ نیز پیدل جانے والے طلباء و طالبات جتھوں کی صورت میں سڑکوں پر چل رہے ہوتے ہیں۔ اس سے جہاں ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے تو وہیں حادثات کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ اتنی بھیڑ اور رش میں ہرکسی بچے پہ نگاہ رکھنا اور اسے قابو کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لہذا والدین کیساتھ تعلیمی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ چھٹی کے بعد بچوں کے انخلاء کے عمل کو محفوظ بنایا جائے۔ بچوں کو یہ سکھانا لازمی ہے کہ وہ اپنی مطلوبہ سواری کا انتظار صبر و تحمل سے کریں اور لائن بنا کر سکول یا کالج سے باہر نکلیں نہ کہ یک دم بھاگتے ہوئے۔ سکول اور کالج کی وین یا بسوں میں گنجائش سے زیادہ بچوں کو بٹھانا بھی حادثات کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بس/ وین میں اسکی گنجائش کے زیادہ بچے نہ بٹھائے جائیں۔ نیز بچوں کو ٹریفک سگنلز کے بارے میں تمام ضروری معلومات ہونی چاہیئے۔ بچوں کو سڑک پہ لگے ہوئے ٹریفک قوانین سے آگاہی کے متعلق تمام اشاروں کو سمجھنا آتا ہو اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بچوں کو پتہ ہو کہ ہم نے ٹریفک پولیس سے کیسے مدد طلب کرنی ہے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں ریسکیو ٹیم کو کال کرنا اور قریبی لوگوں سے مدد طلب کرنا ، ان سب باتوں کی ٹریننگ ہمیں لازمی اپنے بچوں کو دینی چاہیے تاکہ وہ بچپن سے ہی ایک ذمہ دار شہری ہونے کیساتھ ایک حساس اور باشعور انسان بن سکیں۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور اپنا مستقبل روشن اور محفوظ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو اپنی حفاظت کرنا سکھائی جائے۔