میاں شہباز شریف کی حکومت چند دن کی مہمان ہے۔لگتا ہے یوم آزادی سے پہلے وہ وزارت عظمٰی کی کرسی اپنی پسند کے کسی نگران کے حوالے کر کے ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلانا شروع کر دیں گے۔جس میں وہ کسی بھی فیصلے کیلئے جواب دہ نہیں ہوں گے۔اُدھر یہ صورتحال بننے جا رہی ہے،ادھر بیچاری عوام دن بدن مایوسی کی حد تک پریشانی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔شہباز شریف کے جانے کی خبروں کے ساتھ ساتھ ان کی امید کا دیا گُل ہونے کا امکان پیدا ہوتا جا رہا ہے۔انہیں اپنا مستقبل گھپ اندھیروں میں ڈوبتا نظر آ رہا ہے۔بھلا ایسا وزیر عظم کہاں سے ملے گا جو گردن تک مسائل میں ڈوبے ہوئے عوام کو اپنے تن کے کپڑے بیچ کر معاشی مشکلات سے نکالنے کا نہ صرف ارادہ رکھتا ہو بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر ہزاروں لوگوں کے سامنے اس کا برملا اعلان بھی کر دے۔ وزیر اعظم بھی ایسا جو کہ ایک سکہ بند مزدور کا بیٹا ہے ۔اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے ہمدرد وزیر اعظم کے جانے کی خبریں عوام کے اندر مایوسی اور بے چینی کو کیوں نہ جنم دیں؟ عوام کے اندر مایوسی اس بات کی نہیں ہے کہ وہ مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں بلکہ اصل میں بے چینی اس بات کی ہے کہ ڈیڑھ سال ہونے کو ہے ،شہباز شریف حکومت میں ہیں ،عوام کے مسائل کے حل کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی وہ عرب ملکوں کے پاس کشکول لے کر پہنچ جاتے ہیں ،کبھی بد نام زمانہ آئی ایم ایف کی منت سماجت کر رہے ہوتے ہیں ،کبھی چین کے آگے جھولی پھیلا کر جھک جاتے ہیں ،کبھی ملکی اثاثے گروی رکھنے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور کبھی ملک کے ہوائی اڈوں کے انتظام کو لفظ ـ"آئوٹ سورس ـ" کے لبادے میں لپیٹ کر کسی اور کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔حتیٰ کہ سپہ سالار کے ساتھ بھی معیشت کی بحالی کی ذمہ داریاں شریک کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ان کی اس قدر کوششوں کے باوجود عوام ہیں کہ ان کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ آخر شہباز شریف وعدے کے مطابق اپنے تن کے کپڑے بیچ کر ایک ہی جھٹکے میں ان کے مسائل کو حل کیوں نہیں کر رہے؟ عاقبت نا اندیش عوام کا خیال ہے کہ شہباز شریف اقتدار کی چکا چوند اور ایوان اقتدار کی راہ داریوں کی بھول بھلیو ں میں گم ہو کر ان سے کیا گیا وعدہ بھول چکے ہیں اور وہ دن کبھی نہیں آئے گا جب وہ اپنا وعدہ پورا کر کے ان کو مسائل کی دلدل سے نکال باہر کریں گے ۔عوام کے اسی خدشے کا اظہار میں نے اپنے ہم نام سے کیا تو اس نے بتایا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔شہباز شریف کو اپنا وعدہ یاد ہے۔وزارت عظمٰی کی کرسی سنبھالتے ہی وہ اس کام پر لگ گئے تھے اور بڑی استقامت کے ساتھ اب بھی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ان کے تمام اقدامات کا مقصد اپنے تن کے کپڑے بیچنے کیلئے مناسب حالات پیدا کرنا ہے۔ہم نام نے بتایا کہ ظاہر ہے کہ جب وہ تن کی پوشاک بیچ کر اس کی آمدن سے عوام کے تمام معاشی مسائل حل کر دیں گے تو ان کے اپنے پاس تن ڈھانپنے کو کچھ بھی نہیں بچے گا ۔وہ نہیں چاہتے کہ تب عوام اور ان کے درمیان کوئی عدم مساوات کی صورتحال پیدا ہو اور پھر عوام اس امتیازی صورتحال پر شکایات کرتے پھریں ۔شہبا ز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کے درمیان مساوات قائم کرنے کیلئے کس قدر قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔جب سے وزیر اعظم بنے ہیں وہ اپنے مقصد کو نہیں بھولے۔پہلے دن سے ہی انہوں نے یہ کوشش شروع کر دی ۔ایسے ہی لوگ مہنگائی مہنگائی کا رونا رو کر ان کی حکومت کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔عام فہم سی بات ہے کہ جب تک عوام تن کے کپڑوں سے محروم نہیں ہونگے تب تک وزیر اعظم اس پوزیشن میں نہیں ہونگے ،تب تک عوام میں اور ان کے درمیان مساوات قائم ہونے کے امکانات پیدا نہیں ہونگے اور جب تک یہ امکان نہ ہو ان کیلئے مشکل ہے کہ وہ اپنے تن کے کپڑے بیچ کر عوام کو معاشی مشکلات کے گرداب سے نکال سکیں ۔ یہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کا گرنا ، یہ افراط زر ، یہ بجلی گیس اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ، دوائیوں اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں پچھلے ڈیڑھ سال میں بے بہا اضافہ ،سب کا ایک ہی مقصد تھا اور ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو عوام کو تن کے کپڑوں سے محروم کیا جاسکے ۔مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کے پورا زور لگانے کے باوجود بھی عوام ہیں کہ "بے ستر "نہیں ہو رہے اور شہباز شریف کو موقع نہیں مل رہا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کر سکیں ۔ادھر حکومت گیارہ اگست کو اپنی آئینی مدت ختم ہونے سے ایک دن قبل رخصت ہونے کو ہے ۔اب وزیر اعظم کیا کریں؟ اب انہوں نے آخری زور لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔پہلے بجلی کی قیمت ایک دو روپے اور پٹرول کی قیمت د وچار یا حد دس روپے تک بڑھائی جاتی تھی۔ اب اپنے تن کے کپڑے بیچ کر عوام کے معاشی مسائل کے حل کی منزل کے جلد حصول کیلئے خادم اعلیٰ نے یکبارگی بجلی کی قیمت میں ساڑھے سات روپے اضافہ کیا تو کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ دن کم رہ گئے ہیں اور مقصد عظیم ہے اسی لیے وزیر اعظم نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میںبیس روپے کے لگ بھگ اضافہ فرما کر اپنا آخری زور بھی لگا دیا ہے۔امکان ہے کہ اس سے قیمتوں میں کم از کم بیس فیصد سے لیکر پچاس فیصد تک اضافہ ہو گا ۔اس سے اگر عوام کی کمر نہ بھی ٹوٹی تو دوہری ضرور ہو جائے گی اور تب حکومت ، تاجر طبقہ ،ضرورت مند افسر شاہی اور ایسے ہی معاشرے کے دیگر طبقات کیلئے بہت آسان ہو جائے گا کہ عوام کے تن سے آخری پوشاک بھی کھینچ لیں۔یہی وہ منزل ہے جس کے حصول کے بعد وزیر اعظم کیلئے ممکن ہو سکے گا کہ وہ اپنے تن کے کپڑے بیچ کر اس سے حاصل شدہ دولت سے آئی ایم ایف اور دیگر "استحصالی "قوتوںکے قرضے بھی اتار دیں اور عوام کے تمام معاشی مسائل حل کر کے انہیں کے درمیان ان کا تازہ مینڈیٹ لینے کیلئے پہنچ جائیں ۔ اس مساوات کے ماحول میں عوام کے اندر جو ان کیلئے اپنایت ہو گی اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔وزیر اعظم اور ان کے رفقاء کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں حکومت عوام ہی کے مینڈیٹ سے معرض وجود میں آ تی ہے۔ اسی لئے وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پہلے یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ عوام کے مسائل کے حل میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے ۔ وہ چاہ رہے ہیں کہ نگران حکومت بھی ان کی پسند کی ہو تا کہ عوام کی معاشی فلاح کیلئے کیے گئے ان کے فیصلوں میں تسلسل قائم رہے۔