قوم کو مبارک ہو۔بڑی زبردست اطلاع ہے مگر جانے کیوں اخبارات نے اسے اہمیت نہیں دی۔چھوٹی سی خبر بنائی ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلے۔خبر ہے کہ لاہور میں ایشیا کی سب سے بڑی اور تیرہ سال قبل بند کی گئی افیون فیکٹری کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر رینک کاافسر بطور مینجر فیکٹری کے انتظامی امور چلائے گا۔مختلف صوبوں کی نارکوٹیکس کنٹرول ایجنسیز سے افیون کا خام مال حاصل کیا جائے گا اور فیکٹری اسے پروسس کرے گی۔محکمہ ایکسائز کے ذرائع کے مطابق افیون کی پہلی کھیپ 640 کلو گرام جلد موصول ہو جائے گی۔ بننے والی اے کیٹیگری کی افیون ادویات ساز کمپنیوں کو مارکیٹ ریٹ چالیس ہزار روپے کلو پر فراہم کی جائے گی۔ جب کہ بی کیٹیگری کی افیون مضر صحت ہونے کے سبب تلف کر دی جائے گی۔ماشا اﷲ بہت بڑی کارکردگی ہے کہ ایک تو حکومت نے ایک فیکٹری بھال کرکے روزگار کے ہزاروں مواقع اس قوم کو فراہم کر دئیے ہیں۔دوسرا اس قوم کو ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے کہ اس قوم کے لوگ دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کر رہیں۔ ان کی سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں مفقود رہیں۔ اگر انہیں ہوش رہی تو آئین آئین پکاریں گے۔ قانون کی حکمرانی کی بات کریں گے۔ انصاف کی پکار دیں گے جو کہ آج کے حالات میں ہمارے وزیر اعظم کچھ ٹھیک نہیں سمجھتے۔چنانچہ ان حالات میںیہ ایک شاندار فیصلہ ہے جو وزیر اعظم کی نیک خواہشات کا آئینہ دار بھی ہے اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی شاندار سعی۔یہ جو ہمارے بہت سے لوگ یو ٹیوب پر فرفر بول رہے ہوتے ہیں اور حکومت کے خلاف فضولیات کہتے ہیں اگر انہیں ایک آدھ خوراک چاہے بی گریڈ ہی ہو، مل گئی تو یہ اپنی میزوں پر سوتے ملیں گے ،جو حکومت کے بہت سے مسائل کا آسان حل ہے۔دوسرا عالمی اداروں کے مطابق پاکستان بیروزگاری میں اس وقت دنیا میں چوبیسویں (24)نمبر پر ہے۔اگر ایسی چند اور فیکٹریاں لگ گئیں، تو ہم عالمی پیمانے کے حساب سے بہت بہتر پوزیشن پر آ جائیں گے۔ مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ افیون میں درجات بھی ہوتے ہیں۔ویسے اس ملک میں کوئی ایسی چیز بتا دیں، جو اول درجے کی ہو اور عوام کو ملتی ہو ۔عوام تو دوسرے اور تیسرے درجے کی چیزیں حاصل کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ دودھ ، مکھن، پنیر، مصالہ جات اور کھانے پینے کی ساری اشیاء ایسی ہیں کہ اگر ان میں ملاوٹ نہ ہو تو ہمیں ہضم ہی نہیں ہوتیں۔ان چیزوں کے نام پر ہمیں کیمیکل ملتے ہیں،جن کا کوئی درجہ ہی نہیںاور جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ میری ایک عزیزہ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتی ہے ۔وہ اپنے ایک سالہ بچے کے ساتھ لاہور آئی ہوئی تھی کہ بچہ بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کافی علاج کیا مگر افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسے دودھ راس نہیں آ رہا۔بہت سے دودھ بدلے مگر فرق نہ پڑا۔ تنگ آکر وہ بچے کو لے کر واپس چلی گئی۔ وہ بچہ اگلے دن پوری طرح ٹھیک تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہاں کا کوئی بچہ اس قصبے میں چلا جائے اور اسے وہاں کا خالص دودھ پلا دیا جائے تو اس کے کئی ماہ تک صحت یاب ہونے کا کوئی چانس نہیں ہو گا ۔ ہم اور ہمارے بچے گھٹیا اور نا خالص خوراک کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ خالص چیز ہمیں راس ہی نہیں آتی۔وہ تو دودھ کے نام پر کیمیکل پیتے ہیں جو انہیں پوری طرح راس ہے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ افیون کو دوسرے درجے کی قرار دے کر ضائع کرنا تو ایک قومی نقصان ہے۔ وہ لوگ جو زہر بھی ہنس کر پی لیتے ہیں اور اس زہر کے پوری طرح عادی ہیں انہیں یہ دوسرے درجے کی زہریلی افیون کچھ فرق نہیں ڈالے گی۔ ؒلاہور کے علاقے شادمان میں واقع بحال ہونے والی اس فیکٹری کو 1979 کے حدود آرڈیننس کے تحت قائم کیا گیا تھا مگر 2012 میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے بند کر دیا گیا۔فیکٹری اور اس کا کچھ عملہ وہاں موجود تھا،جس کے اخراجات ہر حال میں حکومت ادا کر رہی تھی۔مارکیٹ میں میڈیکل گریڈ افیون کی ڈیمانڈ ہمیشہ رہی ہے۔ چنانچہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نے فیکٹری کی بحالی کے ساتھ فیصلہ کیا ہے، میڈیکل گریڈ افیون دوا ساز کمپنیوں کو چالیس ہزار روپے فی کلو کے حساب سے بیچی جائے۔ افیون ایک پودے جس کو شایدپوست کہتے ہیں کے بیج سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ پودا کاشت کرنا ممنوع ہے۔ مگر نارکوٹکس والے اپنی نگرانی میں کچھ مخصوص علاقوں میں اس کی کاشت کروایں گے اور اپنی نگرانی میں اس فیکٹری کو خام مال کی صورت وہ مہیا کریں گے۔ مجھے اپنا بچپن یاد ہے ، شاید ساٹھ یا ستر کی دہائی تھی۔مزنگ میں صفانوالا چوک میں ایک افیون کی دکان ہوتی تھی۔ ایک گندے سے حلیے کا بندہ ایک ڈارک برائون رنگ کی بڑی سی ڈھیری یا بلاک لے کر بیٹھا ہوتا۔ پتہ چلا کہ وہ افیون ہے بالکل چمڑے جیسی۔ بہت سی مائیں آتیں اور اس سے یہ کہہ کر کہ بچہ بہت روتاہے اور سوتا نہیں ہے ،ایک آنے کی افیون دے دو۔وہ شخص ایک پڑیا میں تھوڑی سی افیون دیتا اور کہتا ، ’’چٹکی سے زیادہ نہیں دینی، یہ مہینہ چل جائے گی۔ بچے کو احتیاط سے دینا‘‘۔ مائیں خوشی خوشی وہ افیون لے کر چلی جاتیںاور اپنے بچے کو افیون پر لگا دیتیں۔سوچتا ہوں ہماری قوم میں جو کاہلی اور سستی ٍآج بدرجہ اتم موجود ہے وہ شاید انہی سیانی مائوں کی دین ہے۔آج کے حکمرانوں کو ان مائوں کا ممنون ہونا چائیے کہ کتنی عقلمند اور جہاندیدہ تھیں کہ ان مائوں نے ان حکمرانوںکے آج کے لئے اپنے بچوں کو باقاعدہ تیار کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ نہ اپنے لئے اور نہ ہی قوم کے لئے سوچتے اوربولتے ہیں ۔سب کچھ جانتے ہیں، دیکھتے ہیں، مگر ایک گونگے اور بہرے کی طرح۔ان پر حالات کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ کل کی افیون آج تک اثر دکھا رہی ہے۔