تاریخ بڑی تابناک بھی ہوتی ہے المناک اور درد ناک بھی۔ تابناک اس اعتبار سے کہ اگر درست فصیلہ درست وقت پر کر لیا پھر اس کے اثرات ملک قوم اور معاشرے پر پڑتے ہیں تو تاریخ بن جاتی ہے۔ المناک اور دردناک اس اعتبار سیکہ فاصلے نہ درست ہوں تو یہ المناک اور دردناک بن جاتے ہیں اور اس کا خمیازہ فیصلے کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ملک و قومکو بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک وقت تھا قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا ایک طرف قائد ایوان کی کرسی اقتدار پر عمران خان براجمان تھے دوسری طرف قائد حزب اختلاف کی کرسی پر شہباز شریف تھے یہ منظر قوم نے دنیا نے دیکھا اور کمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا آج بھی ریکارڈ کے طور پر پارلیمنٹ کی کارروائی میں موجود ہو گا جب اپوزیشن لیڈر تقریر کے لیے اٹھتے ہیں اور متحدہ اپوزیشن کی طرف سے میثاق معشت کی بات کرتے ہیں کہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے آج میثاق معشت کی ضرورت ہے اور حکومت کو میثاق معشت کرنے کے لیے ہم اپنے ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔ جس پر اپوزیشن کی طرف سے تو تالیاں بجیں لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر حکمران نے یہ آفر اس جواز کے ساتھ ٹھکرا دی کہ اپوزیشن اس کے بدلے این آر او چاہتی ہے اور اپنے کیسز معاف کرانے کے لیے میثاق معشت کی بات کر رہی ہے۔ یہ تھا اعتماد کا فقدان ۔ سیاسی بغض و عناد کی سنگین صورتحال جس نے اچھے ارادوں کو اچھی نیت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور تین سال تک ایک ہی چھت یعنی پارلیمنٹ کے نیچے قوم کے نمائندے قائد حزب اقتدار اور قاہد حزب اختلاف کی ایک بھی ملاقات نہ ہو سکی یہ حال تھا ملک کے لئے قوم کے لئے قانون سازی کرنے والوں کا۔ جمہوریت کی گاڑی کے یہ دونوں پہئے مخالف سمت میں چلتے رہے اسٹیرنگ کو کمزور بلکہ توڑ کر رکھ دیا گیا اس محاذ آرائی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور یہ تاریخ بھی دردناک ہی رہے گی کہ وزیراعظم پاکستان اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات کی تصویر تاریخ میں دوربین لگا کر بھی نہیں ملے گی کیونکہ صادق و امین نے ضد بنا لی کہ آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈر کے قومی کردار کو تسلیم ہی نہیں کرنا۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ملک کی معاشی صورتحال دگرگوں سطح پر پہنچ گئی اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار کامیاب ہوئی وہی شہباز شریف جن سے ہاتھ ملانا تو درکنار ان کو برے برے القابات دیتے وہی وزیراعظم پاکستان بن گئے لیکن پارلیمنٹ میں دوسری طرف اپوزیشن لیڈر کی کرسی بھی سابق وزیر اعظم پاکستان کو نہ مل سکی پاکستان ڈیفالٹ کے بھنور میں تھا اسے وہاں سے تو بہترین حکمت عملی سے نکال لیا گیا۔ معاشی خراب صورتحال کا اثر عوام پر اس قدر پڑھا کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی غربت کا کچومر نکل گیا دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی مشکل ہو گیا۔ایک سال چار پانچ ماہ کی حکومت میں شہباز شریف وہ ہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ شہباز شریف کی حکومت ختم ہوئی ملک میں نگران سیٹ اپ بن گیا نگران وزیراعظم پاکستان بھی اپنی فہم و فراست اور بساط سے بڑھ کر پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں لیکن معاشی استحکام نہیں آ سکا ہے آج ایک بار پھر سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف نے چارٹر آف اکانومی کی تجویز پیش کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متفقہ قومی معاشی منشور ہی پاکستان کو موجودہ مسائل سے نکال سکتا ہے، انہوں نے باور کروایا ہے کہ چارٹر آف اکانومی کی تجویز بطور قائد حزب اختلاف بھی ہم نے دی تھی لیکن اس وقت ہماری آفر کو کمزوری سمجھا گیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ آج پوری قوم میثاق معشت پر متفق ہو چکی ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ سیاسی و جذباتی بیانات سے نہیں پالیسی اقدامات سے معیشت بحال ہو گی، کیونکہ عوام مہنگائی سے نجات اور معاشی خوشحالی چاہتے ہیں، انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہم روزگار بھی مہیا کریں گے اور غربت کا خاتمہ بھی کریں گے۔ صدر ن لیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بجٹ خسارا کم کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ماضی میں ہمیشہ پاکستان کی معیشت کو سنوارا، اگر انتخابات میں کامیابی ملی تو معاشی منشور پر عمل کریں گے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ کاروبار میں آسانی لاکر سازگار معاشی ماحول پیدا کرنا ہے، برآمدات میں اضافہ کرکے معاشی پائیداری یقینی بنائیں گے، البتہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ملک کی ترقی کے لیے کام کیا سابق وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ملکی معیشت کی بحالی اور مہنگائی سے عوام کو نجات دلانے کے لئے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، الیکشن جیت کر نوجوانوں کو ہنرمند بنائیں گے اور سٹارٹ اپس کی معاونت اور سرپرستی کرکے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی لائیں گے۔ شہباز شریف کی میثاق معیشت کی آواز قابل توجہ ہے اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی قائدین کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ انتخابات کے بعد حکومت میں آنے والے حکمران بھی اس وقت تک ملک کو معاشی بحران سے نہیں نکال سکیں گے جب تک معاہدہ میثاق معیشت نہیں ہوتا ہمارے سابق وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری نے تو ایک اور میثاق جمہوریت کی بات کی ہے جو کہ خوش آئند ہے اب پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے میثاق معیشت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے میثاق جمہوریت کی بات پاکستان کے بہترین مفاد میں ہیں پاکستان تحریک انصاف استحکام پاکستان پارٹی جمعیت علماء اسلام ف ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو بھی ملک کے بہترین مفاد میں قوم کی خوش حالی اور ملک کی ترقی کے لیے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت ملک کے لئے ناگزیر ہے لہذا اس پر آمادہ ہونا پڑے گا اور میثاق بخلاف آمریت بھی کرنا پڑے گا ورنہ سیاست دانوں کی دال جوتوں میں بٹتی رہے گی۔