جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اللہ خوش رکھے ۔ میری طرح بے شمار دلوں میں انہوں نے اپنے فیصلے سے ٹھنڈک ڈالی ہے ۔ ان کے کئی فیصلے پہلے بھی نظریاتی فکر کے حامل لوگوںکی سوچ اور فکر کی نمائندگی کرتے آئے ہیں اور موجودہ حکم بھی عوام کی دلی خواہشات کے مطابق ہے جورمضان کو کھیل تماشا بنتے نہیں دیکھ سکتی اور اسلام کے نام پر اسلام کے تمسخر سے شدید تکلیف محسوس کرتی ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج نے اپنے فیصلے میں اچھل کود، نیلام گھر سمیت بے معنی اور گھٹیا پروگراموں،گلوکاروں، اداکاروں اور اداکاراؤں کی رمضان پروگرام میں میزبانی پر سخت تنبیہہ کی ہے اور ٹی وی چینلز کو احترام رمضان کی سخت تاکید کی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ چلن جو مشرف دور سے شروع ہوا، جسے پیپلز پارٹی کے دور میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا ،نون لیگ کے دور میں اپنے عروج پر پہنچ گیا ۔ کوئی حکومتی عہدے دار، کوئی وزیر، کوئی وزیر اعظم رمضان کو اس طرح مکمل غیر اسلامی طریقے سے منانے اور بیچنے کا نوٹس لینے کے قابل نہیں تھا۔وہ پیمرا جو وزیر اعظم یا کسی اور سیاست دان یا ادارے کی شان میں زرا سی بھی گستاخی پر ٹی وی چینلز بند کرنے تک کا حکم دیتا تھا، رمضان کی اس واضح بے حرمتی پر آنکھیں کھولے سوتا رہا۔سچ یہ ہے کہ ماہِ رمضان ٹی وی چینلز اور حکومت کی بے حمیتی بلکہ منافقت کا ثبوت بن کر رہ گیا۔ ہمارے یہاں ہمیشہ سے رمضان گزارنے والے بہت بڑی تعداد میں ہیں لیکن اب رمضان بیچنے والے بھی ہیں ۔ اب جس طرح رمضان پر پروگرام بیچنے والوں کی تعداد اور اچھل کود میں اضافہ ہوا ہے وہ عوام کی اکثریت کے لیے نہایت ناپسندیدہ ہے لیکن پیمرا کی آنکھیں اور دماغ محض اس وقت کھلتے ہیں جب کسی بڑے کے ذاتی مفاد پر ضرب پڑتی ہو یا کوئی اور سرکاری مصلحت پیش نظر ہو۔دین کا جتنا بھی تمسخراڑا لیا جائے اور اسے کتنا ہی کھیل کود بنا لیا جائے ،لوگ کتنا ہی احتجاج کریں ۔ پیمرا کو اس سے غرض ہی نہیں چنانچہ یہ تاثر فطری ہے کہ یہ سرکاری پالیسی کے عین مطابق ہے۔ رحمت ، برکت،عبادت اور عافیت کے یہ تیس دن پھر سایہ فگن ہورہے ہیں۔خوش نصیبی ان خوش نصیبوں کی جنہیں یہ مہینہ ایک بار پھر میسر آیا۔یہ تیس دن ہمیں دعوت دینے آئے ہیں اور ہمیں ان کی دعوت پر جانا ہے۔نہیں جائیں گے تو تعلقات خراب ہوں گے.اور جانے سے پہلے ہمیں اپنا حلیہ بھی ممکنہ حد تک ٹھیک کرنا ہے۔ہمیں اس مہینے کی دعوت کرنی ہے۔کل کو یہ مہمان مہینہ چلا جائے گا اور اگلے سال جب آئے گا تو ممکن ہے کہ ہم خاک اوڑھ کر سو رہے ہوں۔ رمضان کریم کے فضائل ،اس کی عبادات اور معمولات کے بارے میں علمائے کرام کے تحریر کردہ اور بیان کردہ ڈھیروں ڈھیر کتابیں، رسائل ، مضامین ،کالم اور بیانات وغیرہ موجود ہیں۔میرا یہ مقام اور منصب نہیں کہ اس پر بات کرسکوں لیکن ایک عام روزہ دار کی حیثیت سے مجھے تو یہی لگتا ہے اور یقینا یہ آپ کا مشاہدہ بھی ہوگا کہ اس مہینے میں ماحول اور فضا بھی نظام الاوقات اور مصروفیات کی طرح بالکل بدل جاتے ہیں۔اور یہ صرف ہمارے یہاں ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان بہت خوشی اور محبت کے ساتھ رمضان کا استقبال کرتے ہیں۔عرب دنیا ہو، ترکی ہو ،برصغیرپاک و ہند ہو یا مشرق بعید کے ممالک۔فجی سے لے کر آباد دنیا کے آخری سرے تک مسلمان غیر معمولی انداز میں اس مہینے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ استنبول ترکی میں استقبال ِرمضان کی ایک بہت منفرد اور دل چسپ روایت ہے۔پانچ مرکزی سلطان مسجدوں کے دو مناروں کے درمیان رات کو بلندی پر روشنی سے استقبال ِ رمضان کے مختلف کلمات لکھے جاتے ہیں۔مثلا ً ’’اے بارہ مہینوں کے سلطان ! خوش آمدید‘‘ یا ’’چاہو اور چاہے جاؤ ‘‘ ۔اس روایت کو ترکی میں ’’ماہیا ‘‘ ) (mahyaکہتے ہیں جس کے معنی ہیں ’’آسمان پر لکھی تحر یر‘‘ ۔بجلی کی ایجاد سے پہلے یہ تحریر لالٹینوں سے لکھی جاتی تھی اور آپ خود تصور کرسکتے ہیں کہ لالٹینوں سے گول دائروں والے حروف بنانا کتنا مشکل ہوتا ہوگا۔افطار کے وقت ترکی، عرب دنیا اور خاص طور پر حرمین میں لمبے لمبے دسترخوان بچھ جاتے ہیں اور مکمل اجنبیوں کو جس لجاجت اور تواضع کے ساتھ اپنے اپنے سجے ہوئے دسترخوان پر دعوت دی جاتی ہے وہ منظر بھی بہت لوگوں نے دیکھا ہے۔ چند سال پہلے میں فیروز پور روڈ لاہور پر شدید ٹریفک جام میں پھنس گیا۔اپنے حساب سے میں اس طرح ٹھیک وقت پر دفتر سے نکلا تھا کہ افطار سے قبل گھر پہنچ جاؤں گا۔لیکن فیروز پور روڈ سے جیل روڈ کی طرف مڑنے والی سڑک کے قریب اس قدر گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں کہ ٹریفک کے رینگنے کا لفظ بھی اس کے لیے کچھ مبالغہ آمیز محسوس ہوتا تھا۔جو گاڑی جس رخ پر جس جگہ پھنسی ہوئی تھی وہاں سے ہلنے جلنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔شدید گرمی ،لمبا روزہ اور سارے دن کی تھکن اس پر مستزاد۔اس ہجوم میں آہستہ آہستہ افطار کا وقت اور یہ یقین قریب آتا گیا کہ افطار اب یہیں اور اسی سڑک پر ہوگا۔میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے افطار کیا جاسکے حتٰی کہ پانی بھی نہیں۔اور گاڑی سے باہر نکلنے یا چھوڑ کر کسی دکان تک جانے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ایسے میں ایک فرشتہ صفت نوجوان کہیں سے نمودار ہوا اس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی بوتلیں تھیں۔وہ گاڑیوں میں یہ بوتلیں تقسیم کر رہا تھا۔ایک یخ بوتل میرے حصے میں بھی آئی۔مت پوچھیے کہ کیسی نعمت تھی اور کیسی اور کتنی دعائیں اس نوجوان کے لیے دل سے نکلیں۔ایسے کتنے ہی لوگوں کا روزہ اس نے بر وقت افطار کرایا، ان کی پیاس بجھائی۔اس کو جو اجر ملا ہوگا وہ اللہ کو علم ہے اور یقیناً اسی اجر میں اس کے دل کی وہ خوشی بھی شامل ہوگی جو اس عمل کے نتیجے میں اسے ملی ہوگی۔ اگر ہم اس ماہ میں انفرادی اور اجتماعی عبادات کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی استطاعت اور گنجائش کے مطابق کچھ چیزیں اپنے معمول میں شامل کرلیں تو یقینا یہ اجر اور یہ خوشی ہمارے حصے میں بھی آسکتی ہے.یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم اپنی ہمت سے بڑھ کر یہ کام کریں لیکن کھجور بھر نیکی بھی کوئی کم نہیں ہوتی۔ ۱۔ہم اپنے ماتحتوں سے اس ماہ کام کا بوجھ کم کردیں۔ ۲۔اپنی گاڑی موٹر سائیکل یا بیگ میں گنجائش کے مطابق کھجوریں اور پانی رکھ لیں شاید دفتر ،دکان ،بازار یا سڑک پر کسی روزہ دار کے کام آسکیں۔ ۳۔کسی نادار اور کم استطاعت والے رشتے دار پڑوسی یا جاننے والے کو دس پندرہ دن کا راشن لے دیں۔ماشاء اللہ بہت سے فیاض اور دل والے یہ کام بڑے پیمانے پر کرتے ہیں.لیکن جس کے لیے جو ممکن ہے اتنا کرلے.پانی کا ایک سیراب کردینے والا گھونٹ بھی پیاسے کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ ۴۔ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین بعض اوقات بہت کس مپرسی کے عالم میں ہوتے ہیں.اور ان میں روزے دار بھی ہوتے ہیں۔ان کی دیکھ بھال اور افطار کا بند و بست ہوسکے تو مریض اور تیماردار دونوں کی دعا مل سکتی ہے۔ ۵۔افطاری پر ہر گھر میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور رنگ برنگ پکوان اور کھانے بنائے جاتے ہیں ۔اگر ہم کسی ایک روزہ دار مثلاـ گھریلو ملازم یا خادمہ کے گھر میں سے ایک اضافی فرد کو بھی افطار کرواسکیں تو ان گھرانوں تک بھی یہ رزق پہنچ جائے گا جو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اللہ سب کو سلامت رکھے لیکن اگلے رمضان آپ یا میں کہاں ہوں گے، کچھ پتہ نہیں ۔ تو کیا ہم اس سال کا مہمان روٹھ جانے دیں ؟۔دسترخوان پرساتھ نہ بٹھا لیں ؟۔ کیا خیال ہے ۔ ؟