ہر عہدے کا ایک خاص وصف ہوتا ہے اور اس عہدے پر کام کرنے والے اپنے مخصوص حالات میں اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ میں ایک استاد ہوں ، استاد کا مرتبہ اس چیز کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ شفیق ہو۔ بچوں سے مہرو محبت سے پیش آتا ہو، بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا جانتا ہو اور سب سے بڑھ کر اپنے طلبا کے لئے آسانی سے قابل رسائی ہو۔میں سمجھتا ہوں کہ جو ٹیچر آسانی سے طلبا کے لئے قابل رسائی نہ ہو وہ اچھا استاد ہو ہی نہیں سکتا۔بالکل اسی طرح پولیس والوں کے عہدے کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔پولیس والا بہت رف اور ٹف ہوتا ہے۔ بدترین حالات میں بھی اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے اپنے علاقے کے لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کرتا ہے۔بہت غیر جانبدار ہو کر شکایات سنتا اور لوگوں کی داد رسی کرتا ہے۔کسی با اثر آدمی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اپنا کام دیانت داری سے انجام دیتا ہے۔کسی دبائو میں نہیں آتا۔ استاد کے بر عکس ایک قاضی مہر و محبت اور لوگوں کی حوصلہ افزائی سے قاصر ہوتا ہے۔وہ اگر آسانی سے قابل رسائی ہو جائے تو وہ قاضی نہیں رہتا۔ اس کا منصب تقاضہ کرتا ہے کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ رہے۔وہ جو بھی فیصلہ کرے وہ انصاف اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو ۔ اس میں کوئی لچک، یا کوئی خدا ترسی شامل نہ ہو۔اسے پتہ ہو کہ وہ اپنے فیصلوں کا کسی حکمران کو نہیں فقط رب العزت کو جواب دہ ہے۔دوستوں کو یہ باتیں شاید عجیب لگیں مگر میں ایک فلاحی معاشرے کی بات کر رہا ہوں جس میں ساری چیزیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ آج کل تو عموماًیہ ہوتا ہے کہ آپ نے کسی سے مروت کی اور اس نے اس کا فائدہ اٹھا کر آپ کی مروت کے بدلے آپ کو ایسی سزا دی کہ آپ عمر بھر اپنی مروت پر پچھتاتے رہے۔آپ کو افسوس ہوتا رہا کہ کیوں مروت کی۔خصوصاً ایسے لوگ جو انصاف کی مسند پر براجمان ہوتے ہیں ان کی مروت کی داستانیں بڑی افسوسناک ہیں۔ انصاف کرنے والے شخص میں دو چیزیں اس کی ذات کے لئے اور معاشرے کے لئے بھی مہلک ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وقت کا قاضی عام لوگوں کے لئے قابل رسائی ہو اور دوسرا یہ کہ وہ صاحب مروت ہو۔یہ دونوں چیزیں انصاف کے ترازو کے پلڑے ایک جیسے نہیں رہنے دیتیںاور دیانتدارانہ فیصلوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہیں۔ ان کے اثرات فوری محسوس کئے جاتے ہیں۔انصاف تو انصاف ہے ، کسی کی ذاتی خوبی یا خامی اس پر کسی طرح بھی اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔مروت میں کئے گئے فیصلے بعض اوقات فیصلہ کرنے والوں کے لیے بھی بہت مہنگے ثابت ہوتے ہیں۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آذر بائیجان اس وقت عظیم ا یران کا حصہ تھا اور قاچار ترک قبائل تھے جو وہاں آباد تھے۔یہ ایک جنگجو قبیلہ تھا اور صفوی خاندان کے بعد جو خانہ جنگی ہوئی اس میں یہ قبیلہ خاصی اہمیت اختیار کر گیا۔ایرانی حکمران ان سے خوش نہیں تھے۔ قبیلے کے سردار محمد حسن خان قاچار کا بیٹا آغا محمد شاہ فقط چھ سال کا تھا اور اس خطرے کے پیش نظر کہ وہ بڑا ہو کر حکمرانوں کے لئے پریشانی کا باعث نہ بنے ، عادل شاہ نے اسے پکڑ کر نامرد بنا دیا، مگر آغا محمد شاہ نے اپنی اس محرومی کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ 1757 میں یہ آذر بائیجان کا گورنر بن گیا۔1758 میں یہ اپنے باپ کی جگہ اپنے قبیلے کا سربراہ مقرر ہو گیا۔1762 میں اسے اس کے ایک مخالف قبیلے کے لوگوں نے پکڑ لیا اور اسے ایک قیدی کی حیثیت سے شیراز میں قید کر دیا گیا۔سولہ (16) سال قید میں گزارنے کے بعد یہ وہاں سے بھاگ نکلااور واپس اپنے قبیلے میں پہنچ گیا۔ ا پنے بہت سے دشمنوں کو شکست دینے کے بعد اب یہ عملاًایران کا بادشاہ تھا اور اس نے تہران کو اپنا پایہ تخت قرار دیا۔ اس وقت تک تہران ایک پرانے شہر ’’رے‘‘ کے کھنڈرات کے قریب ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ پایہ تخت قرار دینے کے بعد اس کی آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا اور تہران پندرہ ہزار نفوس کی آبادی کے ساتھ ایک شہر کی شکل اختیار کر گیا۔1796 میں اس نے جارجیا فتح کیا اور اسی سال خود کو شہنشاہ قرار دیا۔نادر شاہ کا پوتا شاہ رخ جو اندھا تھا اور اس وقت خورسان کا بادشاہ تھا۔ یہ آخری ریاست تھی جہاں ابھی کچھ شورش باقی تھی۔ آغا محمد نے آگے بڑھ کر اس کی سرکوبی کی اور شاہ رخ قتل کر دیا گیا۔ 1797 میں اسے جارجیا کی ایک بغاوت کو ختم کرنے کے لئے پیش قدمی کرنا پڑی۔ راستے میں ایک دن یہ اپنے خیمے میں موجود تھا کہ اس کے دو ملازم خیمے کے باہر ایک دوسرے سے لڑپڑے اور ایک دوسرے سے اونچی آواز میں گالم گلوچ شروع کر دی۔بادشاہ کوان کا شوروغل اور اپنی موجودگی میں گالم گلوچ کرنا اور لڑنا گراں گزرا اور اس نے دونوں کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ بادشاہ مسلمان تھا اور اس میں مذہبی رواداری بھی بہت تھی۔ ملزموں اور ان کے کچھ ساتھیوں نے بادشاہ کو کہا کہ حضور آج جمعہ کا مبارک دن ہے اور انہیں آج قتل کرنا کچھ ٹھیک اور مناسب نہیں۔ بہتر ہے کہ انہیں ایک دن کی مہلت دی جائے اور کل ہفتے کے روز ان کاسر قلم کیا جائے۔بادشاہ نے مروت میںیہ بات مان لی۔چونکہ بادشاہ کا قافلہ ایک میدان میںٹھہرا ہوا تھا اور وہاں جیل میں ڈالنے کی کوئی جگہ نہ تھی اس لئے بادشاہ نے ملزموں کو کہا کہ آج معمول کے مطابق کام کرتے رہو مگر یہاں سے باہر کہیں نہیں جائو گے۔ آدھی رات کو جب بادشاہ سو رہا تھا، وہ دونوں ملازم اس کے خیمے میں گھسے اور بادشاہ کا سر قلم کر دیااور یوں وہ مروت اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ ہم جس ملک کے شہری ہیں وہاں صرف آزادی ہے، حکمرانوں کی خدمت کی آزادی ،حکمرانوں کی تعریف کی آزادی، حکمران مخالف لوگوں کو دشنام کہنے کی آزادی۔مزے کی بات کہ ہم آئین سے بھی آزاد ہیں۔ ایسے حالات میں ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوتا ہے ۔کیونکہ عزت بچانا سب سے ضروری فعل ہے۔