مجھے پودوں کا بہت شوق ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے چھوٹے سے لان میں دنیا جہان کے پھل اور پھول لگے ہوں ۔ پھلوں کی حد تک تو میںبہت کامیاب ہوں۔ پھلوں کے پودوں کا کا درمیانی فاصلہ کم از کم آٹھ سے دس فٹ ہونا چائیے لیکن میرے لان میں یہ فاصلہ تین فٹ کے لگ بھگ ہے جس کی وجہ سے پودے ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں مگر پھل دے رہے ہیں اس لئے سب ٹھیک ہے۔سٹرس کی ہر قسم میرے پاس ہے۔ کنو کے بارہ تیرہ درخت، پھر گریپ فروٹ، مسمی، مالٹا، ریڈ بلڈ، فروٹر، میٹھا، کم کھاٹ، شکری مالٹا، اور بہت سی اقسام، سبھی کے دو دو تین تین پودے ہیں۔جامن کے چارپودے، پپیتے کے سات آٹھ، کالی انجیر ، سفید انجیر، چھ سات آم کے پودے، لیموں کے پانچ چھ پودے، سفید امرود اور کالا امرود، بل گری جسے پنجاب میں کمر کس بھی کہتے ہیں، آواکاڈو، ، انار، سال میں دو دفعہ پھل دینے والا فالسہ،سوانجنا، کچنار، مختلف بیراور کئی پودے لگے ہیں۔کوشش کے باوجود کہ کچھ اور لگائوں مگر مزید کی گنجائش ہی نہیں۔پھولوں میں رات کی رانی رات کے وقت پورے گھر کو مہکائے رکھتی ہے۔آٹرو باٹرو کے پھول جب لگتا ہے تو شاخوں میں چھپا ہوتا ہے مگر اس کی مہک اتنی زیادہ اور شاندار ہوتی ہے کہ دل موہ لیتی ہے اور اس کی سہانی خوشبو کا احساس بڑی دور سے ہو جاتا ہے۔ گلاب کے بہت سے رنگوں میں بیلیں دیواروں کو سجائے ہیں مگر ان کا موسم ابھی نہیں آیا۔ موتیا سفید رنگ کا ایک چھوٹا سا پھول ہے جو اپنی لازوال مہک کے سبب بہترین پھولوں میں شمار ہوتا ہے ۔ میں نے موتیا کے بہت سے پودے لگائے ہیں۔ ان میں چند بڑے سائز کے بھی ہیں۔ ان پر لگنے والا پھول عام موتیا سے دگنا ہوتا ہے۔ویسی ہی مسحور کن مہک ۔بڑا شاندار پودا ہے۔مگر اس سال جانے کیوں میرے پودوں پر موتیا بہت کم ہوا اور اس کمی کو فطرت نے اس طرح پورا کیا کہ میری آنکھوں میں موتیا اتر آیا، سفید موتیا (Cataract)۔آنکھوں میں اترنے والا موتیا دو طرح کا ہوتا ہے سفید موتیا اور کالا موتیا۔کالا موتیا آنکھوں کی ایک بیماری ہے جس کا علاج ایک لمبا اور مشکل مرحلہ ہے ۔یہ واقعی ایک تحقیق طلب کام ہے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ دودھیا پن کی وجہ سے آنکھوں میں جو سفیدی اتر آتی ہے اور چونکہ ڈاکٹر اسے مرض بھی نہیں مانتے ، عمر کا تقاضہ کہتے ہیں اس لئے اسے اسی حوالے سے موتیا کا خوبصورت نام دیا گیا ہے۔ سفید موتیا لاعلاج نہیں۔ ایک آسان ، سادہ اور سہل اپریشن اس کا حل ہے۔ دنیا میں تقریباً تین کروڑ کے قریب لوگ سالانہ یہ آپریشن کرواتے ہیں ۔صرف امریکہ میں یہ آپریشن کروانے والے لوگوں کی تعداد چالیس لاکھ ہے۔علاج کے معاملے میں یہ دنیا میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہونے والے آپریشن ہیں۔ یہ آپریشن فقط پانچ سات منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے اور مریض مکمل صحت یاب حالت میں اس وقت اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ تین چار دن کی احتیاط کے علاوہ مریض پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور وہ معمول کی زندگی گزارنے لگتا ہے۔موتیا اگر زیادہ دیر تک آنکھوں میں رہے اور اس کا علاج نہ کرایا جائے تو ایک وقت آتا ہے کہ یہ آنکھ کو مکمل برباد کر دیتا ہے اور انسان اندھا ہو جاتا ہے۔2020 کے ایک سروے کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں بر وقت علاج نہ کر سکنے کے باعث اندھے ہونے والے افراد کی تعداد 24 لاکھ ہے جن میں عورتوں کی تعداد نسبتاً بہت زیادہ ہے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ ، اس کے بعد بلوچستان اور سب سے کم اندھے لوگ خیبر پختونخواہ میں ملتے ہیں۔دیہات میں لوگوں کو سفید موتیا اور اس کے اثرات کے بارے بھرپور آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ لو گ وقت پر آپریشن نہ کرانے کے باعث اندھے پن سے بچ سکیں۔سفید موتیا کا آپریشن بہت معمولی ہوتا ہے اور بیسیوںادارے اس کا فری اہتمام بھی کرتے ہیں،جہاں آپ کا کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ پرائیویٹ ادارے البتہ اس آپریشن کا ڈیڑھ دو لاکھ وصول کرتے ہیں۔ مزے کی بات لینز کس قیمت کا ہے یہ نہیں بتاتے فقط پیکیج کی بات کرتے اور مرضی کی رقم وصول کرتے ہیں۔ میں نے پچھلے ہفتے ہی یہ آپریشن کروایا ہے ۔جس کا احوال کچھ یوں ہے کہ وقت مقررہ پر میںآپریشن تھیٹرکے باہر موجود تھا۔ایک ڈسپنسر نے میری آنکھوں میں قطرے ڈالے۔ پانچ منٹ بعد دوبارہ قطرے ڈالے گئے اور اس کے پانچ منٹ بعد میں اپریشن تھیٹر میں میز پر لیٹا تھا۔ میرے جسم پر ایک کپڑا ڈال دیا گیا جس میں فقط آنکھ کے برابر ایک سوراخ تھا جو میری اس آنکھ پر تھاجو زیر ستم تھی کہ میں اس سے دیکھ سکوں۔ اس سوراخ سے میری آنکھ پر ایک کاغذ چپکا دیا گیا۔ اب میں دیکھ تو سکتا تھا مگر آنکھ جھپک نہیں سکتا تھا۔تھوڑا پانی سا آنکھ میں ڈالا گیا او ر سرجری شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ لیزر مشین کے تین نقطوں میں جو بڑا ہے اس پر نظر رکھو۔ ایک سے ڈیڑھ منٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اعلان کیا کہ موتیا ختم ہو گیا ہے۔ دو منٹ بعد لینز ڈال کر مجھے پوچھا گیا کہ کوئی پرابلم۔ میں نے نہیں کہا تو انہوں نے کہا کہ اٹھ آئیں آپریشن مکمل ہو گیا ہے۔ نہ کوئی بے ہوشی نہ کوئی ٹیکہ ، بالکل سادہ اور بغیر تکلیف والا عمل تھا۔البتہ بعد میںوہاں گھنٹہ ڈیڑھ بیٹھنا بڑا تکلیف دہ عمل تھا کہ بل ادائیگی کرنا تھی۔ بل کئی جگہ گھوم رہا تھا اور یہ سب غیر ضروری وقت کا ضیاع تھا۔ یہ ایک مہنگا پرائیویٹ ہسپتال تھا مگر مریضوں کے لئے کرسیا ں وہی سٹیل کی رکھیں تھیں جو عام طور پر بس اڈے پر آجکل ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کا حال ایسا ہی ہے کہ مریض سے پیسے ڈٹ کر کھینچو مگر سہولت کی بات نہ کرو۔ بہرحال اس اکیلی بدتر سہولت کے میں سمجھتا ہوں کہ اس آپریشن سے ڈرنے کی بجائے آنکھ کو بچانا زیادہ ضروری ہے اس لئے کہ آنکھیں اﷲکی ایک بہترین نعمت ہیں۔