14 اگست 2023ء کو پوری قوم یوم آزادی قومی و ملی جوش و جذبے سے منا کر پاکستان دشمن قوتوں کو یہ واضح اور دوٹوک پیغام دے گی کہ 14 اگست کو برصغیر کے مسلمانوں کو قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں،متعصب اور مسلمانوں سے نفرت انگیز رویہ رکھنے والے ہندوؤں سے آزادی ملی اور دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی جمہوری ریاست پاکستان ابھری۔ یہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا خواب تھا یہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے افکار کی تعبیر تھی۔ پاکستان اسلام کو دوام بخشنے اور مذہبی ، فکری آزادی اور آزادی اظہار رائے کی بنیاد پر بنا۔ کون چاہتا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو کون چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو زیر نگیں رکھا جائے کون کہتا تھا کہ مسلمان نیچ ہیں۔ کون کہتا تھا کہ مسلمان چھوت ہیں۔ کون تھاجو مسلمانوں کی نماز کے وقت ڈھول باجے اور شور و غوغا کر کے مسلمانوں کی عبادت میں خلل ڈالتا تھا۔ مسلمانوں کو ملازمت کے یکساں مواقع فراہم کرنے میں رکاوٹکون تھا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ ہندو ہی تھا جس کا ایجنڈا اکھنڈ بھارت تھا۔ ہندو مسلمانوں کو آزادی یا آزاد ملک پاکستان نہیں دینا چاہتا تھا لیکن یہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت کا اعجاز تھا یہ اکابرین ملت کی جدوجہد تھی کہ چودہ اگست کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مسلمان پاکستان کے قیام کے وقت اپنے پیاروں کی لاشیں ہندو بلوائیوں کے بے رحمانہ سلوک کی وجہ سے راستے میں کھلے آسمان تلے چھوڑ کر پاکستان آئے ۔ آزادی کی قدر و قیمت ان کو پتہ ہے ان کی نسلوں سے آزادی کی اہمیت پوچھیں ان مسلمانوں سے جو نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے تھے جو اپنا مال و اسباب چھوڑ کر بے یارو مددگار قافلوں میں چلے تھے اور ان کے قافلوں کی منزل کہاں تھی ان لوگوں نے کیوں ہجرت کی پاکستان کی خاطر آزادی کی خاطر،پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، آزادی کے نام پر طعنہ دینے والو مقام غور و فکر ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی کیوں نصیب نہیں ہوئی ان کو حق خود ارادیت کیوں نہیں ملا ۔کیا ان کی جدوجہد آزادی اپنے حق کے لیے نہیں کیا وہ جوانوں کی شہادتوں پر فخر نہیں کرتے کیا کشمیری اپنے عفت ماب ماوئوں بہنوں کی عصمتوں کو نہیں لٹا رہے ان پر جو بے جا پابندیاں ہیں وہ کس وجہ سے ہیں ان کی آزادانہ نقل و حرکت بند ان پر زندگی کے دروازے بند ان پر سیاست کے دروازے بند۔ان پر کیا کیا مظالم نہیں ہوئے یہ زیادہ دور جانے یہ آج سے پچاس سال پہلے کی نسل کو ان کے آباو اجداد نے آزادی کی قدر و منزلت بتا دی تھی۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ آزادی ایک نعمت ہے اور اللہ کی عطا کردہ اس نعمت کا شکر ادا کرتے رہنا انہوں نے نئی نسل کو جس نے پاکستان کی آزاد فضاوں میں آنکھ کھولی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ اپنے آباو اجداد کی جدوجہد اور قربانیوں کے بدلے آزاد فضاوں میں پیدا ہوئے اور آزادی سے سانسیں لے رہے ہیں۔ اس نسل کو یہ ڈر و خوف نہیں تھا کہ ہندو ان کی عبادت میں ان کی مساجد میں داخل ہو کر خلل ڈال سکتا ہے مذاہب اسلام اور دیگر مکاتبِ فکر کے لوگ پاکستان میں آزادی سے اپنی زندگی بسر کرنے پر فخر کرتے ہیں انہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہے انہیں کوئی مایوسی نہیں ہے پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت پاکستان کو اپنا قبلہ و کعبہ سمجھتی ہے وہ اپنی نسلوں کو بھی بتاتے ہیں کہ آزادی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور یہ آزادی پیسوں سے مال و دولت سے نہیں جذبے سے ملتی ہے۔ یہ جذبہ قیام پاکستان کی تاریخ میں ایک روشن و یادگار باب ہے اور مشعل راہ ہے نئی نسل کے لئے،یہ جذبہ ان شا اللہ ایسے ہی سلامت رہے گا جس طرح رہتی دنیا تک پاکستان سلامت رہے گا۔ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کی سوچ ہے کہ ہم لڑیں گے جھکڑیں گے اختلاف بھی کریں گے لیکن ہم اپنے وطن کی سر زمین کو دشمن کو میلی آنکھوں سے دیکھنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے کیونکہ یہ وطن ہمارا ہے اور ہم ہیں پاسبان اس کے۔ آج مقام افسوس ہے کہ چند ذاتی ایجنڈا رکھنے والے یا دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے عناصر مایوسی پھیلا کر کفرانِ نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور یوم آزادی کے خلاف جعلی مہم چلا کر وہ کن کے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں کہ انہوں نے 14 اگست یوم آزادی کے بائیکاٹ کی مہم شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے ،یہ مھٹی بھر چند عناصر ہیں ایسے پاکستانی لوگوں کو خدا کا خوف کرنا چاہیے ایسے لوگوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر جائزہ لینا ہو گا کہ کس کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر ملک کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں ان کے خیالات ان کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں ان کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو گروہ سے ہو انہیں احساس کرنا چاہئے۔کیوں کہ پاکستان کی آزادی تو صرف دشمنوں کو کھٹکتی ہے۔آزادی کی قدر ان قوموں سے پوچھیں جو آج غلامی اور جبر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آزادی کی قدر پوچھنی ہو تو ایک کشمیری بچے سے پوچھیں کہ جس کے باپ کو اس کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا گیا اس بچے کے آنسو پوری دنیا کے میڈیا نے دکھائے کہ وہ اپنے باپ کے سینے پر بیٹھ کر دنیا سے سوال کر رہا تھا کہ میرا قصور کیا تھا مجھے کیوں یتیم کیا گیا۔ مجھ سے میرا باپ کیوں چھینا گیا کیا میرے باپ کا قصور اس کا جرم یہ ٹھہرا کہ وہ آزادی کی خواہش رکھتا تھا۔ آزادی کی قدر جاننی ہو تو فلسطین کے نوجوانوں سے پوچھئے۔جن کے قبلہ اول کی جن کی مساجد کی کھلے عام بے حرمتی ہی نہیں بلکہ نمازیوں کو مارٹر گولوں سے شہید کیا جاتا ہے۔ مایوس و گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر کی سوچ کو ان کے گمراہ کن عزائم کو ناکام بنا ئیں۔