گھانا کے عالمی شہرت یافتہ دانشور اور درجنوں کتب کے مصنف اسرائیل مزیدآیبور نے کہا ہے ’’ملک صرف ایٹم بم سے ہی تباہ نہیں ہوتے بلکہ جس ملک کے حکمرانوں کو اپنی جیب عوام کی زندگیوں اور بہبود سے زیادہ عزیز ہو ان کی کرپشن سے بھی ملک تباہ ہو جاتے ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ شروع بھی اوپر سے ہوتی ہے اورختم بھی طاقتوروں کے احتساب سے ہو سکتی ہے۔ ہمارے اہل اقتدار ملک میں کرپشن کے خاتمے کے دعویدار ہیں اور انسداد بدعنوانی کے لیے ایک نہیں، تین تین ادارے بھی بنا ئے گئے ہیں۔ کہیں کسی منصوبے میں بدعنوانی کا شور اٹھے اور انسداد بدعنوانی پر مامور ادارہ حرکت میں نہ آ پائے تو جوڈیشل کمیشن اور اعلیٰ تحقیقاتی جے آئی ٹیز بھی بنا دی جاتی ہیں مگر کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ نیب اپنے قیام سے تاحال کرپشن کے کسی ایک کیس کومنصفانہ انداز میں اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکا۔ کہنے کو تو اس ملک میں وزرائے اعظم کو بھی سزائیں ہوئیں مگر ہر بار نیب نے ہی تھوک کر چاٹا اور حالات ساز گار ہونے پر عدالت میں یہ اعتراف کیا کہ وہ اپنے دائر کیے گیے مقدمات کی پیروی کرنا چاہتا ہے نا ہی اس کے پاس عدالت سے مجرم قرار پائے گئے بدعنوانوں کے خلاف کوئی ثبوت ہے۔ نیب کی توبہ کے بعد عدالت مجرموں کو بے گناہ اور مقدمات کو خارج کرنے پر مجبور ہوتی رہیں۔اس طرح کے ہر مقدمہ اور ہر فیصلہ کے بعد پاکستانی یہ سرگوشیاں کرتے رہے کہ اگر نیب کے پاس ثبوت ہی نہ تھے تو مقدمہ کیوں بنایا اور پھر بغیر نیب کے ثبوتوں کے نیب کی عدالت نے ملزمان کو سزائیں کس قانون کے تحت سنوائیں اور ملزمان مجرم کیسے بنے؟ نیب عوامی تنقید اور اعلیٰ عدالتوں کے بار بار متنبہ کرنے کے باوجود بھی حکومت کے مخالفین کو قومی دولت لوٹنے کے الزام میں مقدمات بنا کر ہفتوں مہینوں نہیں برسوں حراست میں رکھتا رہا۔ احتساب کے اس اعلیٰ ترین ادارے کا اپنا احتساب نہ ہونے کا ہی نتیجہ تھا کہ نیب نیکسی کے اشارہ ابرو پر سیاسی مخالفین کے ساتھ حکمران سیاسی جماعت کے برسراقتدار وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے خلاف کرسی پر ہونے کے باوجود مقدمات بنائے بلکہ سزا بھی دلوائی۔اس کار ہائے عظیم کے بعد سوال تو یہ بھی کیا جانے لگا کہ اگر نیب واقعی اس قدر متحرک اور فعال ہے تو پھر ملک سے کرپشن ختم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی کیوں جا رہی ہے؟ اور قمر رفیق کو یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کیسے ہوئی کہ کرپشن کی دیمک نے ملک کا ایک کے بعد ایک ادارہ کھوکھلا کر دیا ہے اور یہ دیمک زدہ ریاستی ڈھانچہ کسی بھی وقت زمیں بوس ہو سکتا ہے۔ قمر رفیق کے دعوے کی تائید گاہے صحافتی، سیاسی، سماجی یہاں تک کہ عدالتی حلقوں میں جسٹس صدیقی نے بھی کی۔ شور بھی اٹھا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا کسی نے ایسی آوازوں پر توجہ کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ یہ اہل اختیار و اقتدار کی اسی چشم پوشی کا نتیجہ ہے کہ آج عدالت عالیہ کے چھ ججز سپریم کورٹ میں دہائی دے رہے ہیں کہ ان کو قانون کے مطابق نہیں بلکہ خواہشات کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے خوف زدہ اور مجبور کیا جا رہا ہے، جن ججز کو 23کروڑ پاکستانیوں کو انصاف دینا تھا وہ خود اپنے لئے انصاف مانگ رہے ہیں اور حکمرانوں نے کمشن کمشن کھیل کر معاملہ دبانے کی کوشش بھی کی۔ یہ تو متاثرین کی آواز میں 300قانون دانوں نے آواز ملائی اور کمیشن کے سربراہ نے ہی سربراہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کھیل کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس سے قطع نظر ۔سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ قانون اس قدر کمزور اور بے بس کیوں ہے کہ حکمران قانون کو موم کی ناک سمجھ کر جس طرف چاہیں مروڑ لیں اور طاقتور ججوں کے بازو مروڑیں؟ اس سوال کا جواب دنیا بھر میں تسلیم شدہ آفاقی سچائی ہے کہ کرپشن ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے جس کے پاس جتنا اختیار اور طاقت ہو گی اتنے ہی اس کے کرپٹ ہونے کے امکان ہوں گے۔ انگریزی کا مقولہ ہے۔ ابسیلیوٹ پاور مینز ابسیلیوٹ کرپشن۔ پاکستان میںنظام عدل کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ حکمران اپنے خلاف مقدمات کی تحقیقات بھی خود ہی بند کرلیں تب بھی سسٹم اور انصاف خاموش تماشائی ۔ یقین نہ آئے تو گزشتہ دنوں حکومت کی طرف سے بیرونی قرضوں میں بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی تفصیلات دیکھ لیں۔ قرضہ انکوائری کمیشن کے ذمہ 2008ء سے 2018ء کے درمیان لیے جانے والے قرضوں کے استعمال میں بے ضابطگیوں اور ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا۔ انکوائری کمیشن نے 2020ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ کمیشن نے ملک کے دو درجن اداروں سے وابستہ 300افراد اور 420قرضوں کے استعمال کی تحقیقات شروع کیں اور تحقیقات کے بعد 23اداروں سے وابستہ200اہم ترین شخصیات کی نشاندہی کی جنہوں نے 220نجی اکائونٹس کے ذریعے 150منصوبوں سے 450ارب کی خطیر منتقلیاں کیں۔ کمیشن نے انکشاف کیا کہ بااثر طاقتوروں کی بے ضابطگیوں اور لوٹ مار کی وجہ سے ہی بی آر ٹی پروجیکٹ پشاور 30ارب سے 75ارب، نیلم جہلم پاور منصوبہ کی لاگت 84ارب سے بڑھ کر 500ارب اور17ارب کا نندی پور پاور پراجیکٹ 85ارب میں مکمل ہوا۔ انکوائری کمیشن نے ٹی او آرز کے مطابق اپنا کام تو کر دیا یہ طاقتوروں کا کمال تھا کہ جون 2020ء میں آنے والی کمیشن کی رپورٹ پر خود کمیشن بنانے والی تحریک انصاف کی حکومت مؤثر ایکشن نہ لے سکی۔ عمران خان کو احتساب اور این آر او نہ دینے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود معاملہ ٹھپ کرنا پڑا اور موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اپنے پہلے 30دنوں میں غیر ملکی قرضہ انکوائری کمیشن کو ہی ختم کر دیا ہے۔ جس ملک کے طاقتور 23کروڑ آبادی کے بقا و سلامتی کے لئے 200 بااثر کرپٹ افراد کے احتساب کی قربانی پر آمادہ نہ ہوں اس ملک کے بارے میں قمر رفیق کے دعوے کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ قارئین پر چھوڑنے میں ہی عافیت ہوگی۔