سانحہ جڑانوالہ کے تناظر میں مسلم مسیحی تعلقات اور بین المذاہب ہم آہنگی اور یکجہتی کے حوالے سے سول سوسائٹی کے ساتھ --- دانشگاہیں، جامعات اور ارباب کلیسا و اہالیانِ مسجد و مدرسہ مستعد اور سرگرمِ عمل ہیں۔ جنوب ایشیاء کی عظیم اور قدیم درسگاہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی گزشتہ روز’’مذہبی ہم آہنگی اور آئین ِ پاکستان ‘‘ کے عنوان سے پْر مغز علمی و فکری نشست آراستہ ہوئی، جس کے میزبان ڈاکٹر اشتیاق گوندل اور ڈاکٹر عبد اللہ الصالح تھے،گفتگو کامرکزی نقطہ یقینا یہی تھاکہ ہمارا کانسٹیٹیوشن پاکستان کے تمام شہریوں کو برابر مذہبی آزادی عطا کرتا ہے،یعنی جس طرح مسلمان اپنی عبادت کے لیے مساجد جاتے ہیں، اسی طرح ہندو اپنے مندروں میں،سکھ اپنے گرردواروں، مسیحی اپنے چرچز میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ جیسا کہ قائد اعظم نے اپنے خطبے میں فرمایاتھا کہ آج مینارٹیز اپنے مذہبی امور اور فرائض کی بجا آوری میں بالکل آزاد ہیں۔ اس موقع پر معتبر صاحبانِ فکر و فن سے استفادہ میسر ہوا۔ میرے لئے یہ امر قدر ِ خوشگوار حیر ت کا باعث ہوا کہ پادری، ڈاکٹر ٹونی ولیم پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز میں عبرانی (Hebrew) کے استاد ہیں، عبرانی دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے، یہ زبان بہت سے عروج زوال سے گزرنے کے باوجود آج بھی کسی نہ کسی طور پر زندہ ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں عبرانی زبان نے کافی ترقی کی، یہ فلسطین کے یہودیوں کی قومی زبان قرارپائی۔جدید عبرانی میں اب شعر و ادب کا کافی ذخیرہ دستیاب ہے۔ تورات اور انجیلِ مقدسہ عبرانی زبان میں ہیں۔اس کے بہت سے اصول عربی زبان سے مماثلت و اشتراک اور یکسانیت رکھتے ہیں۔یہ بھی عربی زبان کی طرح دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مدینہ منورہ میں یہودی،مذہبی اور اقتصادی طور پر غالب قوت تھی، جن کے ہاں عبرانی زبان مروج تھی۔ رسالتماب ﷺ نے اپنے جواں سال صحابی زید بن ثابتؓ کو عبرانی زبان سیکھنے کی ہدایت فرمائی تاکہ یہود سے داخلی اور خارجی امور کی بجاآوری میں سہولت ہو۔ عہدِ جدید میں دنیا بھر کی قومیں اور زبانیں جن مختلف دائروں اور زْمروں میں تقسیم ہیں، اس میں عرب قوم کو’’اقوامِ سامیہ‘‘ (Semites The ) اور عربی زبان’’السنہ سامیہ ‘‘( Language Semitic)میں شمار ہوتی ہے۔ یہ دونوں اصطلاحیں بنیادی طور پر عہد نامہ عتیق( Testament Old) کے اس نسب نامے سے ماخوذ ہیں، جس میں حضرت نوحؑ کے تین بیٹے سام، حام اور یافث بتائے گئے ہیں اور طوفان ِ نوح کے بعد تمام اقوامِ عالم کا مورثِ اعلیٰ انہی تینوں کو قرار دیا گیا۔’’اقوام سامیہ‘‘ سام کی نسل تصوّر کی جاتی ہے اور ان کی زبانیں’’السنہِ سامیہ‘‘کہلاتی ہیں۔ عرب کی سرز مین کو سامیوں کا اصل وطن سمجھا جاتا ہے۔ فی الوقت عرب قوم،سامی اقوام کی اور عربی زبان،سامی زبانوں کی بہترین نمائندہ کے طور پر معتبر ہے اور سامی زبانوں میں اگر صحیح معنوں میں کسی زبان کا چلن تسلسل کے ساتھ باقی ہے تو وہ صرف عربی ہی ہے۔ بہر حال اس نشست میں، ڈاکٹر محمد حماد لکھوی ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیزپنجاب یونیورسٹی، طٰہ قریشی ممبر آف برٹش ایمپائر یوکے، ڈاکٹر محمد عبداللہ ڈائریکٹر شیخ زاید اسلامک سنٹر، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد گوندل، پروفیسر ڈاکٹر مفتی عبد الباسط خان، ڈاکٹر کلیان سنگھ اور بشپ امجد نیامت سمیت مختلف طبقات شعبہ ہائے زندگی کے چنیدہ رہنماؤں نے شرکت کی۔اس پروگرام کا ایجنڈا اور مقصد جڑانوالہ کے دلخراش واقعات جیسا کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ اور قابل مذمت ہیں اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کا انفرادی و اجتماعی سطح پر تعین کرنے کی حکمت عملی تشکیل دینے کے مختلف تجاویز اور لائحہ عمل تیار کرنے کی مشاورت کرنا تھا۔ تمام اہل علم نے بہت خوبصورت اور جامع گفتگو کرتے ہوئے، اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے حدیث نبوی بیان کی کہ ’’مَنْ قَتَلَ مُعَاہَدًا لم یَرَح رَائحَۃَ الْجنۃَ، واِن رِیحَہَا تُوْجَدْ من مَسِیرَۃ اربعین عامًا‘‘۔یعنی حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:جس نے کسی معاہد(ذمی) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ پائے گا‘ جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کے برابر کی دوری سے محسوس کی جاتی ہے۔سانحہ جڑانوالہ میں جنت کے حصول کے لئے لوگوں کو ورغلایا گیا کہ ایسے کرنے سے جنت ملے گی۔ دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کو جلا کر دین کی کوئی خدمت نہیں ہوتی اور حدیث نبوی میں تو یہاں تک فرمایا گیا کہ ذمی کا قتل کرنے والا جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گااور تمام شرکا مجلس نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نسل نو کے نوجوان بچوں (14 سے 16 سال کی عمر کے بچے) کا بہت غلط استعمال کیا گیا، جو کہ بہت تشویشناک امر ہے۔ یہ( Factor Age) بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔لیکن اس میں ایک کردار قانون کی عملداری کا بھی ہے،طٰہ قریشی نے کہا کہ فتنہ کو اپنے پیارے ملک پاکستان میں پھیلنے سے روکیں۔ ’’پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان نہیں تو ہم کچھ نہیں‘‘ ہم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا چونکہ مسلمان بحیثیت اقلیت خود کو متحدہ ہندوستان میں غیر محفوظ سمجھتے تھے۔اگر پاکستان میں کوئی اقلیت خود کو غیر محفوظ سمجھے تو یہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کی نفی ہو گی۔ دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں ہمارے لیے باعث احترام ہیں حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ نے اہل قدس کو جو امان دی تھی اس کے الفاظ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو میسر مذہبی آزادی کا دستور ہیں۔ ھذا ما اعطی عبد اللَّہ عمر امیر المؤمنین اہل اِیلیاء من الامان، اعطاھم امانا لانفسہم واموالہم، ولکنائسہم وصلبانہم، وسقیمہا وبری ا وسائر ملتہا، انہ لا تسکن کنائسہم ولا تہدم، ولا ینتقص منہا ولا من حیزہا، ولا من صلیبہم، ولا من شیء من اموالہم، ولا یکرھون علی دینہم، ولا یضار احد منہم…الخ (ابو جعفر ابن جریر طبری، سنہ خمس عشرہ، ذکر فتح بیت المقدس) ’یہ وہ امان نامہ ہے جو امیرالمومنین حضرت سیّد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایلیاء والوں کو دیا ہے، ایلیا والوں کی جان و مال، گرجے، صلیب، بیمار، تندرست سب کو امان دی جاتی ہے اور ہر مذہب والے کو امان دی جاتی ہے، ان کے گرجاؤں میں سکونت نہ کی جائیگی اور نہ وہ ڈھائے جائینگے یہاں تک کہ انکے احاطوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائیگا، نہ ان کی صلیبوں اور مالوں میں کسی قسم کی کمی کی جائیگی، نہ مذہب کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تشدد کیا جائیگا اور نہ ان میں سے کسی کو کوئی ضرر پہنچائے گا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کوئی اسلامی لشکر بھیجتے تو سپہ سالار لشکر کو یہ ہدایات دیتے تھے:’’ولا تفسدوا فی الارض ولا تعصوا ما تو مرون و لا تغرقن نحلا و لا تحر قنھا و لا تعقروا بھیمۃ و لا شجرۃ تثمرو لا تھدموا بیعۃ و لا تقتلوا الولدان و لا الشیوخ ولا النساء و ستجدون اقوام جسوا انفسھم فی الصو ا مع فد عو ہم و ما جسوا انفسھم لہ۔‘‘ ’’ خبردار! زمین میں فساد نہ مچانا اور احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا، کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ انہیں جلانا، چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھلدار درختوں کو کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو مت گرانا، اور نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا، تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ کو محبوس کر رکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا ۔‘‘ کسی شاعر نے کہا کہ: ’’کسی کے واسطے یہ بھی حرم ہیں عبادت گاہیں سب کی محترم ہیں۔‘‘ یعنی مسئلہ ایسا نہیں کہ صرف مذمتوں سے ہی حل ہو، مرمتیں (Repairing)درکار ہیں۔ (آئین و قانون کا نفاذ ضروری ہے)۔ ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں۔کوئی شخص قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا چونکہ ہر جرم کے لئے قانون موجود ہے۔ تمام طبقات کے افراد کو اجتماعی سطح پر معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے ملکر کام کرنا ہو گا۔پاکستان ایک گلدستہ ہے جس میں سب پھولوں نے ملکر اس کو پرامن اور خوبصورت بنانا ہے اور سب نے ہم آہنگی اور یکجہتی کیساتھ رہنا اور بسنا ہے۔ یہی ہمارے دین اسلام کی تعلیمات ہیں۔