نعیم ہاشمی صاحب کی آج بیالیسویں برسی ہے،اس تقریباً نصف صدی میں مجھ سے جو سوال سب سے زیادہ پوچھا گیا: تم اپنے باپ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو؟ میں نے اس سوال کا جواب کبھی کسی کو نہیں دیا، بس مسکرا کے رہ گیا، آج پہلی بار لب کشائی کر رہا ہوں، لیکن پہلے تھوڑی سی تمہید۔ میں اپنے باپ کا عاشق تھا اور عاشق ہوں جو ایک اسکالر تھے۔ ایک جینئس تھے اور خاموشی سے علم کے خزانے بانٹا کرتے تھے،بقول احسان دانش وہ ایک اچھے غزل گو شاعر تھے ، لیکن میں نے کبھی اپنے والد کو اشعار سناتے ہوئے نہیں دیکھا، انہیں اور بہت سے کلاسیک شاعروں سمیت علامہ اقبال کا تمام کلام بھی ازبر تھا، انہیں انگریزی زبان اور انگلش لٹریچر پر بہت عبور تھا لیکن انہیں کبھی انگریزی بولتے نہ سنا، پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں وہ اردو فلموں کے مقبول ترین ولن تھے، ایسے ایسے Evil کردار ادا کرتے کہ اللہ کی پناہ۔ ان کی ان کرداروں پر مشتمل فلموں میں چھوٹی بیگم، عذرا، ایاز، صبح کہیں شام کہیں، دروازہ، سرفروش،اور جادوگر وغیرہ شامل ہیں۔۔ ہم بہت چھوٹے تھے گھر سے باہر نکلتے تو لوگ ان کے بارے میں عجیب عجیب سوال کرتے ایک سوال تو عام تھا: کیا آپ کے والد گھر میں بھی پیتے ہیں؟ پنجابی فلموں میں یہ کہہ کر کام سے انکار کر دیتے کہ ان میں مارجن آف ایکٹنگ بہت کم ہوتا ہے، 1960ء تک تو ایک بھی پنجابی فلم ان کے کریڈٹ پر نہیں تھی لیکن گھر یا باہر انہیں کبھی اردو بولتے سنا نہ دیکھا گیا۔ وہ گھر اور گھر سے باہر پنجابی ہی بولتے تھے،وہ کبھی رزق کی تلاش میں نگار خانوں میں نہ گئے، انہوں نے نور اسلام، شمع،خاتون، نگار ، عظمت اسلام جیسی بڑی فلمیں ڈائریکٹ کیں‘ کہانیاں لکھیں، گیت لکھے، اور جب فلم نور اسلام اور عظمت اسلام کے لئے لکھی گئی ان کی نعتیں سامنے آئیں تو وہ خود بھی امر ہو گئے، نعیم ہاشمی صاحب حافظ قرآن بھی تھے۔ جب کوئی فنانسر یا پروڈیوسر ان کے پاس آتا تو اسے سرمایہ ڈوب جانے کے خطرے سے اتنا زیادہ آگاہ کر دیتے کہ وہ ان سے بھاگ کر کسی دوسرے ڈائریکٹر کے پاس پہنچ جاتا۔ ’’نگار‘‘ کے بعد نعیم ہاشمی صاحب نے دوسری ذاتی فلم ’’ چشم بد دور‘‘ شروع کی، (اس زمانے کی ٹرم جب روپیہ سولہ آنے کا ہوتا تھا) فلم بارہ آنے مکمل ہونے کے بعد ڈبوں میں بند ہوگئی، وجہ یہ بنی کہ فلم کے ہیرو یوسف خان اور ہیروئن شمیم آرا تھے، اس جوڑی کی ایک دو فلمیں فلاپ ہوئیں تو تقسیم کار نعیم ہاشمی صاحب کی فلم اٹھانے سے گریزاں نظر آئے، ان دنوں اچھرے اڈے کے رہائشی ایک شخص نے ان سے ملاقات کرکے سرمایہ فراہم کرنے کی پیشکش کی، یہ واقعہ میرے سامنے ہوا، ہاشمی صاحب اس شخص سے کہہ رہے تھے، میری پیسے تو ڈوبے ہوئے ہیں، میں تمہارے پیسے کیوں ضائع کراؤں ؟ اب میں آپ کو صرف ایک واقعہ سناتا ہوں، جس سے میری میرے باپ سے محبت کی وجہ سامنے آ جائے گی۔ ..1976… نعیم ہاشمی صاحب آخری دنوں میں جسمانی طور پر بہت کمزور ہوگئے تھے، شوگر کا عارضہ تو انہیں 1960ء میں ہی لاحق ہوگیا تھا اور پھر ساتھ بلڈ پریشر بھی ، ناشتے سے پہلے انسولین کا انجکشن لگاتے تھے، میں ان کی زندگی کے آخری ایام میں روزانہ تازہ اور میٹھے لوکاٹ لا کر دیتا، ڈاکٹر کہتے تھے کہ شوگر والے اس قسم کے پھل کھا سکتے ہیں۔ ایک شخص جو کھانے کا اتنا شوقین تھا کہ ہر قسم کے آموں کے ٹوکرے لے کر آتا۔جو آدمی مختلف اقسام کی تیس تیس کلو مچھلی لاتا، کئی کئی پکوان اپنے ہاتھوں سے تیار کرتا ، اور کھانے کی میز پر دوستوں کو مدعو کرکے خوش ہوا کرتا تھا۔پھر وہ وقت آ گیا کہ شوگر کی بیماری کے باعث ڈاکٹروں کے تجویز کردہ کھانے ہی کھا سکتا تھا۔ وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ کچھ پتہ ہی نہ چلا ،نعیم ہاشمی کی جوانی اچانک بڑھاپے میں ڈھل گئی، ان کو اس حال تک پہنچانے والا وہ نامور فنانسر تھا جو اپنی ہر فلم کا خود ہیرو اور اس کی بیوی ہیروئن ہوتی تھی(بلا شبہ وہ دونوں متحدہ ہندوستان کے بڑے آرٹسٹ تھے)، اس نے نعیم ہاشمی کی مجبوریوں کا خوب استعمال کیا، بہت استحصال بھی کیا، نعیم صاحب بار بار اس کے جال میں پھنستے رہے ، صرف اس لئے کہ اس ادارے کے لئے وہ بیک وقت اداکار، رائٹر، شاعر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرکے فنکارانہ آسودگی حاصل کرتے تھے۔ ایک سہ پہر جب کہ وہ بہت علیل تھے میں گھر گیا تو ان کی چارپائی خالی تھی، پتہ چلا کہ کوئی پروڈیوسر انہیں گاڑی میں بٹھا کر لے گیا ہے، میں بہت پریشان ہوگیا ، وہ تو آسانی سے چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھے تو کسی کے ساتھ کیسے چلے گئے؟ تین چار گھنٹوں بعد واپس لوٹے تو بہت تھکے تھکے لگ رہے تھے، میں نے ان کے پاؤں دباتے ہوئے آہستگی سے پوچھا‘ ابا جی آپ کیوں گئے؟ یار وہ بابر بلال ہے ناں کیمرہ مین، فلم بنا رہا ہے،، یارانہ،، میرا ایک وائنڈ اپ سین تھا،بس چلا گیا، اور ان کی طرف پیسے بھی نکلتے تھے میرے… کیا انہوں نے پیسے دیدئیے آپ کو؟ نہیں کہہ رہے تھے ایک دو ہفتوں میں فلم ریلیز ہوگی اس سے پہلے معاوضے کی باقی رقم گھر آکر دے دینگے، مجھے یاد ہے ان لوگوں نے پیسے گھر پہنچا دئیے تھے۔ ایک صبح میں نے ابا جی سے کہا، بہت دنوں سے چارپائی پر لیٹے ہیں، کیوں نا آپ کو گھر سے باہر تھوڑی سی چہل قدمی کرادوں ، وہ مان گئے، سو دو سو قدم ہی چلے تھے کہ ایک جگہ بیٹھ گئے،،یار اس سے زیادہ نہیں چل سکتا، میں انہیں واپس گھر لے آیا۔ اس دن میں نے سوچا کہ ان کے تو کئی دوستوں کو علم نہ ہوگا کہ وہ گھر میں بیمار پڑے ہیں، انہیں اگر اطلاع ہو جائے تو ابا جی کو کمپنی ملتی رہے گی ، اسی سوچ کے ساتھ شام کو روزنامہ مشرق کے آفس پہنچ گیا اور اس کے چیف ایڈیٹر ضیاء الاسلام انصاری کو ہاشمی صاحب کی علالت کی خبر اشاعت کیلئے دیدی۔ اگلے دن شام کے وقت گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بیمار نعیم ہاشی صاحب کی گونجدار آواز آئی،ادھر آؤ… تم نے میری علالت کی خبر چھپوائی ہے اخبار میں ؟ میں آہستگی سے بولا،، جی ابا جی، پھر ہاشمی صاحب کی زبان سے انتہائی نحیف حالت کے باوجود … وہ وہ مغلظات سنیں کہ بس شرمندگی سے ان کے سامنے سر جھکائے کھڑا رہا۔ میرے پاس ان کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا، یقینا میں بہت بڑی غلطی کر چکا تھا، اور اس غلطی کا کوئی مداوا بھی نہ تھا میرے پاس۔ وہ کہہ رہے تھے… تم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہو؟، کیا تم چاہتے ہو کہ لوگ مجھ سے ہمدردی کریں؟ میری بیماری کی تصویر دکھانا چاہتے ہو دنیا کو؟ تم نے یہ جرم کیا تو کیا کیوں؟ تم نے اپنے باپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا… پتہ نہیں وہ کیا کیا کہتے گئے اور میں کیا کیا سنتا رہا؟ یہ خطاب ،یہ الفاظ مجھے میرے باپ کی طرف سے دی گئی وراثت تھے، جن کا امین اور پاسدار ہوں میں۔ انہوں نے مجھے ہر حالت میں اپنے قدموں پر سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ دیا۔ خودداری اور انا کی جو دولت باپ نے بیٹے کو بخشی ،اسی کی بدولت میں تن تنہا ، ون مین آرمی بن کے آمروں اور ڈکٹیٹروں سے ٹکراتا رہا اور سر خرو ہوتا رہا۔اب آپ ہی انصاف کریں میری باپ سے محبت جائز ہے یا نہیں؟۔ نعیم ہاشمی صاحب بھی کئی دوسرے حساس فنکاروں کی طرح بہت تھوڑا جیے، ان کا انتقال صرف اکیاون برس کی عمر میں ہوا۔ اللہ نے می ٹو کے شکار علی ظفر اور دوسرے کئی شعبوں کے پتہ نہیں کتنے مردوں پر بہت کرم کر دیا ہے،ورنہ میرے تو بہت سے دوست ڈر گئے تھے، سینئر ماڈل رابی پیرزادہ نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میشا شفیع اور علی ظفر سے شروع ہونے والی کہانی ہی پلٹا دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہماری شو بز کی دنیا میں عورتوں کو مردوں سے کوئی خطرہ نہیں، شو بز میں آنے والی نئی لڑکیوں کو زیادہ عمر کی آرٹسٹ عورتوں اور سینئر ماڈلز سے خطرہ ضرور رہتا ہے، رابی پیرزادہ اچھی لڑکی ہے، جھوٹ کیوں بولے گی؟ اگر رابی نہ بولتی تو کسی نہ کسی نے تو بولنا ہی تھا، اور ایک بولنے والا تو میں خود بھی ہو سکتا تھا۔ ڈر تو میں بھی گیا تھا اس دن، پتہ نہیں کیوں ؟ حالانکہ میں ان مظلوم مردوں میں شامل ہوں جنہیں کئی بار کئی نامور عورتوں نے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کے بعد سب سے بڑے حکومتی عہدیدار پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو بھی یو اے ای کی ایک کمپنی میں ملازمت کا الزام ثابت ہوجانے پر نا اہل قرار دیدیا گیا ہے۔خواجہ آصف نے خود عدالت عظمی میں آجر کمپنی کا ایک خط پیش کیا تھا ،جس میں لکھا گیا تھا کہ خواجہ صاحب ان کی کمپنی کے جز وقتی ملازم ہیں اور تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں، اس فیصلے نے (ن) لیگ کو مزید کمزور کر دیا، حکومتی پارٹی کی ایک بڑی وکٹ گری ہے۔ دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ بھی نہ صادق تھا نہ امین تھا۔کیا یہ وہی بڑی وکٹ تو نہیں جس کے گرنے کا ذکر دو دن پہلے عمران خان نے کیا تھا؟