ایک مسلسل آزمائش اور کرب کی کیفیت سے دوچار اس دور ابتلاء میں ضروریات زیست کی دستیابی روز بروز لمحہ بہ لمحہ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ ہر نفس مضطرب اور پریشان اور آنے والے کل کے خوف سے بوجھل ہے۔سماج میں بڑھتی ہوئی غربت کی لکیر نے آسودگی کے ساتھ زندہ رہنے کے امکانات بتدریج معدوم کردیے ہیں۔اس پر آشوب دور میں سب زیادہ مشکلات کا سامنا متوسط طبقے کوکرنا پڑ رہا ہے۔ صحت ،تعلیم اور رہائش کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، جو ریاست اور اس کے متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس سے ریاست بتدریج اغماض برت رہی ہے ۔ریاستی ادارے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو ، انتظامی نااہلی اور حکومتی سطح پر درست ترجیحات کے فقدان کے باعث ، پورا کرنے سے قاصر ہیں۔خود غرضی، بے یقینی ،خوف ،لالچ اور بدعنوانی کی بڑھتی ہوئی صورت حال کے باعث سماج کی اخلاقی اقدار بڑی حد تک پامال ہو چکی ہیں۔ ایسے حالات میں جو بات حوصلہ افزا ہے وہ یہ کہ حکومت کی تمام تر غفلت ، عدم توجہی اور سماجی انحطاط کے باوجود کچھ افراد اب بھی ایسے ہیں جو اداروں سے بڑھ کر سماج کی بہتری کے لئے فکر مند بھی ہیں اور عملی طور پر سرگرم عمل بھی اور فراز کے اس شعر کی مکمل تصویر بھی کہ: شکوہ ٔ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے ایسے ہی لوگ ہیں جو سماج کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اگرچہ ان کی تعداد کم سہی مگر ان کے کام کی نوعیت ، اخلاص نیت اور عزم مسلسل سے سماج میں مثبت تبدیلیوں کا خاموش عمل جاری ہے۔کبھی عبدالستار ایدھی کی شکل میں جو لاوارث بچوں سے لے کر لا وارث لاشوں تک کو اپنا لیتے ہیں، انسانیت کے لئے ان کی خدمات کو بین الاقوامی طور پر بھی سراہا جاتاہے ان کا قائم کردہ فلاحی ادارہ ایدھی ٹرسٹ نہ صرف پاکستان میںبلکہ ملک سے باہر بھی اپنی سماجی خدمات کے لئے ایک مستند اور مستعد ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ تو کبھی ڈاکٹر امجد ثاقب کے روپ میں جو غربت اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے اخوت فائونڈیشن کے توسط سے پورے ملک میں ایک خاموش انقل لاب کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ایسے ہی شخصیات میں اب پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر بھی شامل ہو چکے ہیں ، جو خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی رحیم یار خان کے وائس چانسلر ہیں ، جن کی تعلیمی اور سماجی خدمات یونیورسٹی کی حدود سے باہر نکل کر پورے رحیم یار خان بلکہ پورے جنوبی پنجاب کے علاقوں تک پھیل چکی ہیں۔ وائس چانسلر کی حیثیت سے اپنے تین سالہ دور میں آپ نے انجینئرنگ یونیورسٹی کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک اعلی تعلیمی ادارے کے طور پر شناخت دی ۔ عالمی طور پر شہرت یافتہ جامعات کے تعلیمی ماحول ، معیار اور کارکردگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہوئے خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان میں بھی اسی طرح کا ماحول قائم کرنے کے لئے کوشاں ہوئے اس کے لئے انہوں نے مالیات کی فراہمی کے لئے محض حکومت کے فراہم کردہ وسائل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے طور پر مقامی عطیہ کنندگان تلاش کرتے ہوئے ایک ارب سے زائد روپے کے عطیات جمع کئے تاکہ ایسے طلبہ و طالبات جو مالی وسائل کی عدم موجودگی کے باعث یونیورسٹی کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے وہ بھی اسکالر شپس حاصل کرتے ہوئے اعلی تعلیم حاصل کرسکیں۔ ڈاکٹر سلیمان طاہر کا یہ وژن ہے کہ کوئی بھی طالب علم محض تعلیمی اخراجا ت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہے۔اور اس کا دائرہ رحیم یار خان تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ پورے پنجاب کے طالب علموں کو اس ا سکالر شپس سے مستفید ہونے کے مواقع حاصل ہوئے۔تعلیم و تدریس سے اپنی اس گہری وابستگی کے ساتھ ساتھ انہوں نے دیگر سماجی خدمات کے لئے بھی خود کو مصروف عمل رکھا ۔ عبدالستار ایدھی ، ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر عبدالقدیر کی پیروی کرتے ہوئے مقامی سماجی مسائل اور مصاء پر بھی گہری نظر رکھی۔ یونیورسٹی اساتذہ اور مقامی درد شناس لوگوں کے ساتھ مل کر رمضان المبارک کے مہینے میں ایک کثیر تعداد کے لئے روزانہ کی بنیاد پر روزہ افطار کرانے کا اہتمام کیا۔ حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی کیمپ کے انعقاد ، راشن کی فراہمی، اور بے گھر ہو جانے والے لوگوں کے لئے یونیورسٹی ہاسٹلز میں ان کیلئے رہائش کا عارضی انتظام بھی کرایا۔داد رسی کے ان ہی اقدامات کے باعث یونیورسٹی اور مقامی آبادی کے مابین ہم آہنگی اور یگانت کو فروغ حاصل ہوا ۔ عام طور پر تعلیمی اداروں اور مقامی آبادی کے مابین ایک مغائرت اور اجنبیت کی فضا قائم ہوتی ہے ۔ جس سے ہر دو کے مسائل اور مشکلات سے ہر دو عموما بے خبر رہتے ہیں ۔یہ ڈاکٹر سلیمان طاہر کی ذاتی کوششیں اور ان کا دور رس وژن تھا جس کے باعث تعلیمی ادارے اور مقامی آبادی کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملا اور مقامی سماج میں مثبت تبدیلیوں کی شروعات ہوئیں۔ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کے لئے ڈاکٹر صاحب کے انہماک اور اخلاص پر مبنی ان کی کوششوں کو حکومتی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے : ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے خدا کرے روشنی کا یہ سفر اسی طرح جاری رہے اور ڈاکٹر سلیمان طاہر کا یہ کارروا ںاسی طرح آگے اور آگے بڑھتا ہی چلا جائے۔ ٭٭٭٭٭