انڈین چینل آج ٹی وی میوات کے مناظر دکھارہاہے وہ بڑے خوفناک اوردل دہلانے والے ہیں،ہرطرف مسلمان بستیاں محاصرے میں ہیں۔کئی مبصرین کا کہناہے کہ میوات میں مسلم کش فساد کی منصوبہ بندی پہلے سے کی جاچکی تھی ۔انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے ضلع میوات میں31جولائی 2023سوموار کوہندودہشت گرد تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے دہشت گردغنڈوںنے (گڑ گاؤں) کے سیکٹر 57 میں واقع مسجد کو آگ لگادی اور مسجد اورمسجدکے 22سالہ نائب امام سعد انور کوکر شہید دیاجبکہ مسجد میں آئے نمازیوںکومار مارکر زخمی کر دیا۔شہید ہوئے مسجد کے نائب امام بہار کے رہنے والے تھے ۔جس وقت ہندوانتہاپسندوں نے مسجدکوجلاڈالا اورمسجد کے نائب امام کوشہید کردیا تو وہاں اس وقت پولیس فورس تعینات تھی لیکن اس نے ہند ودہشت گردحملہ آوروں کو نہ روکا ۔ریاست میوات کے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں مسلم فسادات میںتادم تحریر ہلاکتوں کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔گُڑ گاؤں میں درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیاں واقع ہیں ان میں گوگل، ڈیلوئٹ اور امیریکن ایکسپریس بھی شامل ہیں۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں سے محض 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہندودہشت گرد تنظیموں نے مسلمانوں پر حملے کئے ۔خیال رہے کہ31جولائی 2023سوموار کو میوات کے علاقے نوح ضلع میںبجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے ’’جلابھشیک یاترا‘‘ نکالا جس میں ایک مفرور ہندو دہشت گرد مونو مانیسر بھی شریک تھا۔مونو مانیسر اعلانیہ گو رکشک ہے اور وہ دو مسلمان نوجوانوں ناصراور جنید کے قتل میں مفرور ملزم ہے۔ہندئووں کا یہ جلوس جب مسلمان بستیوں سے گذررہاتھاتو شرکاء جلوس نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نعرہ بازی کی جس پر مسلمانوں نے اعتراض کیا۔ اس دوران ہندو دہشت گردوں نے مسجداورمسجد کے نائب امام شہیدکردیاجبکہ درجنوں نمازیوں کو شدید زدوکوب کیا۔اس وقت جبکہ یہ سطورحوالہ قلم کررہاہوںتو پوراگڑگائوں مسلم کش فساد کے نرغے میں آچکا ہے اورمیڈیارپورٹس کے مطابق علاقے میںکئی مساجد کو آگ لگی ہوئی ہے ۔ واضح رہے کہ 2016کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیاکی ریاست ہریانہ کے علاقے میوات میں مسلمانوں کی تعداد 5لاکھ سے زائد ہے جنہیں میواتی مسلمان کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ متعصب ہندو میوات کو منی پاکستان کہتے ہیں۔ انڈیا کے اکثریتی ہندوؤں کے ہاتھوں اقلیتی مسلمان روزاول سے ہی عتاب کے شکار ہیں تاہم 2014 ء میں نریندر مودی کی شکل میں آرایس ایس کی ہندو قوم پرستوںکے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردہندوتنظیموں کو اعلانیہ طورپر سرکاری سرپرستی حاصل ہو چکی ہے اورتب سے مسلمانوں سے کھلے عام کھلواڑ جاری ہے۔مودی سرکار کی سرپرستی میں دہشت گردہندوتنظیموں اور اسکی پروردہ آر ایس ایس نے انڈیاکے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے انڈیاکی یہ کھلی غنڈہ گردی کسی عالمی طاقت کو نظر نہیں آرہی اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تمام عالمی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیاکو مسلمانوں کیخلاف کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ مودی سرکار کی سرپرستی میں مسلم کش فسادات کا یہ گھنائونا سلسلہ جاری ہے اورمسلم کش فسادات پورے انڈیامیں مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے اورمسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔پرافسوس کہ عالمی برادری کو اپنی مجرمانہ خاموشی پر ذرابھر شرمندگی نہیں۔معاملہ پوری دنیاکے سامنے ہے کہ انڈیا اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور جنونیت میں پاگل ہو چکا ہے‘مگراس کے باوجود اقوام متحدہ بھی اس کے سامنے بے بس ہے۔ اگر چہ انڈیا میں کوئی ایسا وقت نہیں گزراکہ جس میں مسلم کش فسادات نہ ہوئے ہوں تاہم تازہ ترین واقعات میں2020میں دہلی میں ہوئے مسلم کش فساد کے زخم تازہ ہیں۔ 23 فروری 2020 کو دہلی کے شمالی علاقے میں بدترین مسلم کش فسادات ہوئے ان فسادات میں درجنوں مسلمانوں کوشہید کیا گیااوران کی املاک کوبڑے پیمانے پرکے نقصان پہنچایا گیا جبکہ مساجد، مدارس اور مزاروں کوآگ لگا کر بھسم کیا گیا ۔فروری 2020میں شمال مشرقی دہلی کے شیو وہار، کھجوری خاص، چاند باغ، گوکل پوری، موج پور، قراول نگر، جعفرہ آباد، مصطفی آباد، اشوک نگر، بھاگیرہ وہار، بھجن پورہ اور کردم پوری علاقوں میںمسلم کش فسادات ہوئے۔ سال 2011 کی مردم شماری میں شمال مشرقی دہلی میں ہندوؤں کی آبادی 15 لاکھ 29 ہزار 337 یعنی 22.68 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی چھ لاکھ 57 ہزار 585 یعنی 34.29 فیصد ہے۔باقی مسیحی آبادی نو ہزار 123 ہے، سکھ 17 ہزار 424 ہیں، بدھ مذہب کے پیروکار دو ہزار 388 ہیں جبکہ جین مذہب کے ماننے والے 24 ہزار ہیں اور ان سب کا تناسب ایک فیصد یا اس سے کم ہے۔اب چونکہ آج پھرانڈیاکی ریاست ہریانہ کے میوات میں مسلمانوں پر قیامت ڈھائی گئی ہے ،معلوم نہیں کہ ہندودہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں اس علاقے کے کتنے مسلمان کٹ جائیں اور کتنی مساجد اورمدارس کونذر آتش کیا جائے گانہ معلوم انہیں کتنے کروڑوں کا مالی نقصان پہنچایا جائے۔بنظر غائر دیکھا جائے اورتمام شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح اوردوٹوک ہے کہ انڈیامیںمسلم کش فسادات میں ہمیشہ پولیس کا مجرمانہ کردار رہا ہے ۔ پولیس ہندوفسادیوں کی عملی مدد کرتی رہی ہے ۔پولیس نے ہربارمتاثرین کی ایف آئی آر کو درج کرنے میں پس و پیش سے کام لیا ہے۔ فسادات میں مسلمان ہی متاثر ہوئے اور انہیں ہی ہمیشہ فسادات کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، اور جو ہندو فسادات کرانے والے تھے انھیں بری کر دیا ان پر کوئی کیس درج نہیں کیا گیا ہے اور پولیس بھی ان کو بچا تی چلی آرہی ہے۔انڈیامیں ہورہے مسلم کش فسادات کو ہمیشہ دو فرقوں کے مابین لڑائی کے طور پر دکھایا جا تارہاحالانکہ مسلمان ان فسادات میں ایک فرقے کے طور پرکبھی سامنے نہیں آئے بلکہ ان پر فسادات ٹھونسے گئے اورپھرانہیں دانستہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ انڈیاکی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں تو پتا چلتا ہے کہ سال1931 کے کانپور فسادات سے سال 2023 کے دہلی فسادات تک92 برسوں میںمسلمانوں پرخون ریز حملے کئے گئے اور ہندوئوں کی بجائے مسلمانوں فسادات ہوئے۔کانگریسی لیڈر بھگوان داس ٹنڈن نے 1931میںکانپور فسادات پررپورٹ میں لکھاتھاکہ یہ ایک ناسور کا شدید ترین مظاہرہ تھا جس نے اپنے جراثیم ہندوستان کی سیاست میں اس طرح چھوڑے کہ نسل در نسل یہ ناسورموجود رہے گا۔کانگریسی لیڈر کااشارہ ہندوسیاسی تنظیموں اورہندوسیاست کاروں کی طرف تھا۔واضح رہے کہ گانگریس کے دورمیں انڈیامیںلاتعداد مسلم کش فسادات ہوئے ہیں جس کی ایک طویل فہرست ہے۔