الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی طرف سے پنجاب الیکشن کے التوا اور 8اکتوبر کی نئی تاریخ کے اعلان کی صورت میں جہاں قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرانے کا اشارہ ملتا ہے، وہاں ایک آئینی بحران بھی سامنے کھڑا نظر آرہا ہے اور قوی امکان ہے کہ یہ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں جائیگا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے 30اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ بدھ 22مارچ کی رات کو سامنے آیا۔ کمیشن نے اپنے جاری حکم نامے میں کہا کہ اس وقت حالات سازگار نہیں، فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکورٹی اہلکار دستیاب ہے۔ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور اسٹیٹک فورس کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق آئی جی پنجاب نے امن و امان کی خراب صورتحال سے آگاہ کیا۔ دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ دہشت گردوں کیخلاف آپریشن مکمل ہونے میں پانچ ماہ لگیں گے۔ پنجاب میں 3لاکھ 86ہزار 629اہلکاروں کی کمی ہے جو فوج اور رینجرز کی تعیناتی سے ہی پوری ہو سکتی ہے۔ وزارت داخلہ کے اس عذر کا حوالہ بھی دیا گیاکہ سول آرمڈ فورسز اسٹیٹک ڈیوٹی کے لئے دستیاب نہیں ہوں گی۔ کمیشن کے مطابق آئین کے تحت حاصل اختیارات کی رو سے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا ہے اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف 90دن میں انتخابات نہ کرانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ توہینِ عدالت میں تو آتا ہی ہے بلکہ یہ آئین شکنی بھی ہے جس پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اگر انتخابات ملتوی کرنا تھے تو وہ سپریم کورٹ میں جاکر اپیل کرتاکہ ہم ایسے حالات میں الیکشن نہیں کرا سکتے آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟بادی النظر میں ایسا لگتا ہے چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ اب وہی کچھ ہوگا جو سپریم کورٹ کے حکم پر خط نہ لکھنے کے جرم میں یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا تھا۔الغرض ملک میں آئینی بحران آ چکا ہے۔عمران خان نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ تحریک انصاف اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جانے کے ساتھ ساتھ ملک گیرتحریک شروع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتالوں کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔جلسے جلوس شہر شہر اور گائوں گائوں شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں بالعموم اور مسلم لیگ ن بالخصوص الیکشن سے خوفزدہ ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ عمران خان سے الیکشن نہیں جیت سکتے۔ پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام کو تو پھر بھی امید ہے کہ اس وقت اُن کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں ہیں (یا تحلیل شدہ پنجاب اور خیبرپختون خوا اسمبلیوں میں تھیں)، اتنی تو وہ کم از کم آئندہ انتخابات میں حاصل کرلیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوجائے۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ اور ن لیگ نیچے سے نیچے جا رہی ہے۔ بقول شاعر : ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ن لیگی کہتے تھے کہ ہمارے پاس تو بڑے تجربہ کار لوگ ہیں، ہم معاملات ٹھیک کر لیں گے لیکن اب رو رہے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ لندن میں نواز شریف کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ عوام کو بتایا جائے کہ نواز شریف اور عمران خان کے دور میں کیا فرق تھا اور اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کا سارا ملبہ عمران خان اور اُن کی حکومت پر ڈالا جائے۔ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے بھی حاصل کچھ نہ ہوا کیوںکہ شہباز شریف حکومت کے گزشتہ دس گیارہ مہینوں کے دوران نہ صرف ملکی معیشت مزید خراب ہوئی، کاروبارتباہ ہو گئے اور مہنگائی نے تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بہرکیف حالات یہی نظر آرہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کروانے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اس کی تین وجوہات بتائی جا رہی ہیں، پہلی یہ کہ امن و امان کا مسئلہ ، دوسرا وزارت خزانہ کے پاس پیسے نہیں ہیں، جبکہ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سکیورٹی اداروں کے پاس نفری نہیں ہے۔ اب مجھے بتایا جائے کہ جب 2002ء میں الیکشن ہوئے، یا 2008میں الیکشن ہوئے یا 2013ء میں الیکشن ہوئے تو اُس وقت کونسے امن عامہ کے مسائل نہیں تھے، آج کی نسبت پہلے زیادہ امن و امان کے مسائل کا سامنا تھا۔ 2008ء اور 2013کے الیکشن میں تو ہمارا مشرقی بارڈ ر بھی خوب ایکٹو تھا، تب بھی الیکشن ہوئے۔ اور پھر مان لیا جائے کہ آج حالات ٹھیک نہیں ہیں تو کونسی گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے، اور پھر الیکشن کروائے جائیں گے؟ پھر دوسری وجہ معیشت کی ہے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم تو 1970ء سے ہی الیکشن لے دے کر کروا رہے ہیں، یعنی1970ء کے بعد سے ہی مقروض ملک میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ تب تو کسی کو خیال نہیں آیا کہ پیسے کہاں سے آنے ہیں ؟ لیکن اس کے برعکس آج بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں مشکلات میں گھرے ملک میں الیکشن سے ضروری اور کیا چیز ہوسکتی ہے؟ آج ڈالر چند روپے گرتا ہے تو ویسے ہی ملک کو سینکڑوں ارب روپے کا نقصان ہوجاتا ہے۔ تو الیکشن کے لیے تو محض 40، 50ارب روپے درکار ہوتے ہیں۔ لہٰذاہمارے سامنے اپنے ملک کی چھوڑیں دنیا بھر کی مثالیں موجود ہیں جہاں جیسے بھی حالات ہوں مگر الیکشن کروانے اتنے ہی ضروری ہوتے ہیں جتنا عوام کے لیے ملک ضروری ہوتا ہے۔ آپ بھارت کو دیکھ لیں، انتہا پسند وں نے جیسے بھی حالات پیدا کیے مگر وہاں الیکشن کبھی نہیں رکے۔ اور نہ ہی الیکشن کمیشن کبھی دبائو میں آیا۔ آپ بنگلہ دیش کو دیکھ لیں۔ سابقہ جنرل الیکشن میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسیاں دینے کے حوالے سے حالات خاصے خراب تھے مگر وہاں کی الیکشن کمیشن نے طے شدہ شیڈول کے مطاب الیکشن کروائے۔ آپ 2017ء کے انڈونیشین جنرل الیکشن دیکھ لیں، برے حالات کے باوجود الیکشن کروائے اور ملک کو استحکام بخشا۔ برطانیہ کے بری ایگزٹ کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ وہاں کتنی دفعہ عوامی ریفرنڈم ہوا اور کتنی دفعہ عوامی رائے کے ذریعے ملک میں استحکام لایا گیا۔ یہی نہیں آپ ایران کے 2009ء کے الیکشن کے دنوں میں ایران کے حالات پڑھ لیں، کیا اُس وقت الیکشن ہو سکتے تھے جب امریکی بحری بیڑے ایران کے سر پر بیٹھے تھے۔ لیکن ناصرف الیکشن ہوئے بلکہ ملک میں استحکام آیا۔ یعنی مسائل سے گھرے ممالک میں تمام مسائل کا حل ہی الیکشن ہوتے ہیں ، لہٰذااگر برسر اقتدار حکومت اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کو اگر کوئی ٹھوس وجہ نہیں مل رہی تو بروقت الیکشن کروا دیں تاکہ آئینی بحران حل ہو۔ ورنہ یہ ملک مزید تباہی کی جانب جائے گا! نہیں یقین تو آپ پی ڈی ایم کے مورال کو دیکھ لیں اور اُن کے رہنمائوں کی باڈی لینگویئج کو دیکھ لیں۔