اس وقت پوری قوم کی نظریں چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر ٹکی ہوئی ہیں کہ وہ الیکشن کے متعلق کیا فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو کئی بار فیصلہ دے چکے ہیں کہ الیکشن 14مئی کو ہی ہوں گے۔ لیکن الیکشن کمیشن فنڈز کی کمی کے حوالے سے حکومت سے گزارش کرتا ہے، مگر حکومت اس حوالے سے ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ پھر سپریم کورٹ کو اس حوالے سے درمیان میں آنا پڑتا ہے اور آرڈر جاری کرنا پڑتا ہے کہ اسٹیٹ بنک 21ارب روپے جاری کرے۔ لیکن اسٹیٹ بنک بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر معاملہ وفاقی کابینہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ میں آجاتا ہے اور پارلیمنٹ فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال ثابت قدمی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’دس سے پندرہ ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں، ایسے فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں، عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے، عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات میں پڑے۔‘‘پھر اس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ ’’سپریم کورٹ نے الیکشن کے فنڈز سے متعلق جواب مانگا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ثالثی اور پنچایت سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، سپریم کورٹ کا کام قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہے، الیکشن کے لیے اکتوبر یا نومبر کی تاریخ بنتی ہے، اتحادی حکومت نے آخری کوشش کی کہ سب ایک الیکشن پر متفق ہوں۔‘‘ موصوف وزیر اعظم بالکل درست فرما رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا کام ثالثی نہیں ہے! بلکہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہیں۔ اگر اس وقت موجودہ صورتحال کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر حکومتی پارٹیوں اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں تو یہ الگ معاملہ ہے۔ اس کا سپریم کورٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ سپریم کورٹ کا کام یہ ہے کہ جو آئین ہے اُس کی وضاحت کرے اور اُس کے مطابق فیصلے کرے۔ عدلیہ کا اس سے کیا لینا دینا ، کہ ملکی حالات کیا ہیں؟ سیاستدانوں کے حالات کیا ہیں؟ فوج کے کیا حالات ہیں؟ معیشت کیسی ہے؟ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ آئین کی رو سے فیصلے کرے! بادی النظر میں آئین یہ کہتا ہے کہ جیسے ہی اسمبلیاں ختم کی جائیں اُس کے 90روز کے اندر انتخابات ہونے چاہیے۔ ا س لیے اگر 90دن میں الیکشن نہیں ہوں گے، تو سپریم کورٹ بتا دے کہ آئندہ الیکشن 180دن میں ہوا کریں گے۔ عوام یہ نہیں کہتے کہ الیکشن کب ہوںگے یا کب نہیں ہوں گے؟ بلکہ عوام یہ چاہتے ہیں بتایا جائے کہ آئین کیا کہتا ہے؟ کیا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ الیکشن بلاجواز ملتوی کر دیے جائیں؟ آئین کو مذاق بنا دیا گیاہے۔ اس کا مطلب جیسے پہلے آئین عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت استعمال ہوتی رہی ہے، اب بھی ایسا ہی ہوگا! اور اب بھی نظریہ ضرورت کو درمیان میں لایا جا رہا ہے۔ بہرحال مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ الیکشن وقت کی ضرورت ہیں، ملک کی ضرورت ہیں، معیشت کی ضرورت ہیں، اگر اس بار الیکشن ملتوی ہوتے ہیں تو یہ ایک روایت قائم ہو جائے گی، ہر بار ایسا ہی ہوا کرے گا! اور پھر کسی کی کیا جرأت کہ کوئی سپریم کورٹ سے یہ کہہ دے کہ ہم یہ نہیں کر سکتے؟ اگر آئین کے فیصلے سپریم کورٹ نے دبائو میں آکر کرنے ہیں، کہ کون ٹی وی پر اچھا بولتا ہے، یا کون کتنے بندے لے کر آگیا ہے، یا کس نے کتنا ہنگامہ برپا کیا ہے اُس کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے۔ تو پھر ملک برباد ہوتے وقت نہیں لگتا ۔ ہاں امریکا میں بھی شروع شروع میں عدالتی فیصلوں کا بہت بڑا عمل دخل سیاست کی صورت میں نکلتا تھا اور اس حوالے سے عدلیہ پر ہمیشہ دباؤ رہتا تھا۔ اسی دباؤ کے حوالے سے امریکی سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دلچسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ اکثر درست نہیں ہوتا۔ اس لیے عدلیہ کو چاہیے کہ وہ دبائو کو ملحوظ خاطر نہ رکھا کریں۔ بلکہ کچھ عرصہ قبل تو یہی کہا جاتا تھا کہ جج صاحبان نہ تو اخبار پڑھیں گے اور نہ ہی ٹی وی دیکھیں گے بلکہ وہ صرف اور صرف آئین پڑھیں گے۔ اور اُس کے مطابق فیصلے کریں گے۔ ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ ’’بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں‘‘، اس کتاب میں انھوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ پھر اس کتاب میں ماضی میں امریکا کی عدالتوں میں ’’سیاسی ججز‘‘ کی بھرتیوں اور اس میں ہونے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں ایک جج کی بغیر میرٹ کے بھرتی پورے سسٹم پر بھاری پڑتی ہے۔ بہرکیف ملکی سیاست کے مشاہدے نے یہ بات بھی سمجھائی ہے کہ ’’توہین عدالت‘‘ چٹ منگنی پٹ نکاح کی صورت عائد نہیں ہوتی۔عدالت اس کا ’’انصاف کے تقاضوں‘‘ کے مطابق جائزہ لینے کو مجبور ہوتی ہے۔وزیر اعظم شہبازشریف نے اگر سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس صاحب کی نگاہ میں الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا 14مئی کے روز انعقاد یقینی بنانے کے لئے 21ارب روپے ’’دانستہ طور‘‘ پر فراہم نہیں کئے تو موصوف پر ’’فرد جرم‘‘ لگانا ہوگی۔ اس کے اطلاق سے قبل بھی تاہم انہیں صفائی دینے کا موقع بھی ’’انصاف کے تقاضوں‘‘ کے مطابق فراہم کرنا ہوگا۔ فرض کیا وہ خود کو ’’فرد جرم‘‘ کے اطلاق سے بچانہ پائے تو اس کے اطلاق کے باوجود بھی ’’ملزم‘‘ کو اپنے دفاع کا موقع دینا ہوگا۔ مسئلہ ہمارے ’’ذہن سازوں‘‘ کا یہ ہے کہ وہ شہباز شریف کی ’’توہین عدالت‘‘ کی بدولت ممکنہ نااہلی کو اس تناظر میں رکھ کر دیکھ رہے ہیں جو یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کا مقدر ہوا تھا۔ یاد رہے کہ وہ دونوں وزیر اعظم ’’انفرادی‘‘ وجوہات کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے غضب کا نشانہ بنے تھے۔ یوسف رضا گیلانی بطور وزیر اعظم اپنے ہی ملک کے منتخب صدر کی مبینہ کرپشن کے ’’ثبوت‘‘ حاصل کرنے کے لئے سوئٹزرلینڈ کی حکومت سے باقاعدہ انداز میں رجوع کرنے کو آمادہ نہ ہوئے۔اس کی بدولت ’’توہین عدالت‘‘ کے مرتکب ٹھہرائے گئے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ چیف جسٹس صاحب اس وقت ڈٹ جائیں اور آئین کے مطابق فیصلہ دیں۔ میرے خیال میں آپ ہی وہ واحد چیف جسٹس ہوں گے جو نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے۔