ایک اطلاع ملی ہے کہ دبئی میں آصف زرداری اور میاں نوازشریف کے درمیان اہم ملاقات ہونے والی ہے۔ ملاقات کا ایجنڈہ عام انتخابات کی حکمت عملی‘ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور نگران وزیراعظم کا نام فائنل کرنا ہے۔یہ ملاقات لیکن ملک میں جاری بحران میں کس قدر کمی لا سکتی ہے اس کا اندازہ مجھے ہے ۔مسئلہ یہ نہیں کہ فیصلہ کسے کرنا چاہئے ، سوال یہ آن پڑا ہے کہ عوام ایک طرف کھڑے ہو گئے ہیں اور فیصلہ کرنے والے دوسری طرف ۔جب تک کوئی ایک فریق اپنی پوزیشن بدل کر دوسری طرف نہیں جاتا بحران حل نہیں ہو سکتا ۔ایسی ملاقاتیں اچھی بات ہے۔ پاکستان نے بھنور میں نہیں رہنا‘ یہ کشتی کنارے لگانے کے لیے اب ان دو بوڑھے ملاحوں پر انحصار کیا جارہا ہے۔ لیکن کالم کا موضوع یہ اطلاع نہیں۔ اصل خبر یہ ہے کہ گزشتہ برس لاہور کے جس نوجوان ڈاکٹر ولید ملک نے ایک ساتھ 29 گولڈ میڈل لے کر ایم بی بی ایس پاس کیا تھا اسے 20 سرکاری ہسپتالوں میں ملازمت کی درخواستیں دینے کے بعد ابھی تک نوکری نہیں ملی۔ولید ملک اگر کسی وفادار کا پوتا ہوتا تو نالائق ہونے کے باوجود اسے وزیر اعظم اپنا مشیر تو لگا ہی لیتے ،ورنہ نالائقوں کو عزت دینے والے کسی اہم محکمے کا سربراہ لگا دیا جاتا۔ ولید ملک لائق ہے، حکمران اشرافیہ کو ایسے لوگ اپنے دشمن محسوس ہوتے ہیں جو ان کی سر پرستی کے بنا آگے آ جاتے ہیں۔ میرے بہت سے دوست اور کالم کے قاری امریکہ‘ یورپ اور برطانیہ میں آباد ہیں۔ اب متحدہ عرب امارات میں بھی خاصا وسیع حلقہ یاراں بن چکا ہے۔ ان سب سے جب کبھی بات ہوتی ہے یقین کریں کوئی بھی پاکستان واپس آنے کی خواہش نہیں کرتا۔ ان کے بچے پاکستان کا سفر کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ کئی بار بچوں کو زبردستی پاکستان لایا جاتا ہے۔ ایک بچے نے تو پاکستان میں یورپی ملک کی ایمبیسی کوفون کرکے اپنے ساتھ ہونے والی زبردستی کی شکایت کی۔ ہاں جو لوگ پاکستان میں پیدا ہوئے وہ خوشحال اور پرامن ملکوں میں بیٹھ کر اجداد کی قبروں کو یاد ضرور کرلیتے ہیں۔ حالیہ دنوں ایک سانحہ ہوا ہے۔ یونان کے قریب گنجائش سے زیادہ سواریوں والی ایک کشتی ڈوب گئی۔ کشتی میں 300 سے زائد پاکستانی نوجوان سوار تھے جو فی کس 20 لاکھ روپے دے کر غیر قانونی طریقے سے یونان میں داخل ہوناچاہتے تھے۔حکومت ان کا مرثیہ جانے کیوں نہیں ہر تقریب میں پڑھ رہی۔ اکثر 18 سے 25 سال کی عمر کے بچے تھے۔ لوگ سنگدلی سے طعنہ دے رہے ہیں کہ یہ اپنے ملک میں ان پیسوں سے کوئی کاروبار کرسکتے تھے۔ بالکل وہ ایسا کرسکتے تھے لیکن کیا کوئی یہاں کاروبار کا مستقبل بتا سکتا ہے۔یہاں سب سے منافع بخش کاروبار سیاست ہے جہاں دو تین خاندانوں کی اجارہ داری ہے، جو ان کی اجارہ داری ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے یہ نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ کچھ سال قبل سعیدہ وارثی برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ اور سینئر وزیر منتخب ہوئیں تو خوشی ہوئی۔ سعید وارثی کے والد ایک معمولی نوکری کرتے تھے۔ گوجر خان سے برطانیہ منتقل ہونے والے ان کے والدین نے اولاد کو تعلیم دلائی۔ زندگی میں کچھ کرنے کا حوصلہ دیا۔ برطانوی سماج نے ان کی صلاحیتوں کو پذیرائی بخشی اور وہ حکمران پارٹی کی سربراہ بن گئیں۔ سعیدہ وارثی اب کسی سیاسی عہدہ پر نہیں لیکن وہ پاکستان کے لیے فخر کی علامت ہیں۔ اب ذرا تصور کریں وہ پاکستان میں ہوتیں‘ ان کے والدین کن مشکلات سے تعلیم دلاتے‘ سماج سے کیسے لڑنا پڑتا‘ نوکری کے لیے رشوت کیسے دیتے اور پھر کسی پرائمری سکول میں استانی لگ جاتیں۔ برطانیہ اور پاکستان میں اس فرق کو ایسے واضح کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مواقع مخصوص طبقے کے لیے ہیں جبکہ برطانیہ میں سب کے لیے مساوی مواقع موجود ہیں۔ گوگل کے سی ای او بھارتی نژاد ہیں۔ سندر پچائی اپنی بیگم کے ساتھ دو دن پہلے صدر بائیڈن کی جانب سیوزیراعظم مودی کے اعزاز میں دئے گئے ڈنر میں موجود تھے۔ سندر پچائی کسی سیاسی پارٹی‘ حکمران اشرافیہ اور دولتمند خاندان سے نہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک کامیاب ٹیکنالوجی سے دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ گوگل آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے آنکھ کو سکین کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے سی ٹی سکین اور ایکسرے کی ٹیکنالوجی بروئے کار تھی۔ اس سکین کی انفرادیت یہ ہے کہ آنکھ کا معائنہ کر کے یہ پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ مریض کے جسم میں کون سے امراض اور خرابیاں جڑ پکڑ رہے ہیں۔ دل کے امراض کا وقت سے پہلے پتہ چلایا جا سکے گا۔سندر پچائی نے اس ٹیکنالوجی کو سب سے پہلے بھارت میں استعمال کیا ۔بھارتی حکومت نے ان کو سہولت دی ۔ہمارے لوگ ملک کی معیشت ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ،حکومت ان کا ہاتھ جھٹک دیتی ہے ۔ یہ ملک نہیں جبر کی فیکٹری ہے۔ کچھ لوگ ہم پر مسلط ہیں کہ تمام فیصلے بس انہوں نے کرنے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں ملک میں بجلی کی قلت ہے‘ پھر ایک برادر ملک میں کمپنی بنتی ہے۔ وہ کمپنی آناً فاناً پاکستان میں سولر پینل فراہم کرنے کا اجارہ حاصل کرلیتی ہے۔ اب کوئی دوسری کمپنی یہ پینل درآمد نہیں کرسکتی۔ ان فیصلہ کرنے والوں سے سوال کیا جاتا ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں نہیں ہورہا۔ وزیر صحافی کوتھپڑ جڑ دیتا ہے۔ ایک وزیر ڈھٹائی سے بتا رہا ہے کہ اگلے الیکشن میں کون سی سیاسی جماعت حصہ لے گی‘ کون حصہ نہیں لے سکے گی‘ کون حکومت بنا سکے گا۔ ایک مٹی کا مادھو ہے۔ جو کہتا ہے اسے خود بھی سمجھ نہیں ہوتی۔ وہ حکمران جماعت کے ٹکٹ کا خواہاں ہے۔ اس ماحول میں پیارے ڈاکٹر ولید ملک تم گلے میں 29 گولڈ میڈل ڈالے کیا سمجھ رہے ہو۔ یہاں تمہیں کوئی نہیں دیکھے گا۔ لوگ تاج بنوا کر استحصالی کرداروں کے سر پر سجا رہے ہیں تم جیسوں کو کون اہمیت دیتا ہے ۔