سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک دوسرے کو برداشت کر کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ اگر یہ ملک الیکشن کی طرف جا رہا ہے تو ابھی وقت ہے کہ پہلے ترجیحات طے کر لیں ،کم از کم کچھ بڑے منصوبے۔ ہم اس خطے میں ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں یہ سب کچھ طے ہونا بھی چاہیے اور قوم کے سامنے بھی آنا چاہیے۔ میاں صاحب کی واپسی پہلی دفعہ نہیں ہو رہی گزشتہ واپسیاں بظاہر ناکام ہوئیں جسکا اظہار وہ کئی دفعہ کر بھی چکے ہیں۔ ایک مسئلہ ہے ہمارے ہاں جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ مکمل اختیارات چاہتا ہے۔ مداخلت اسے پسند نہیں ہوتی، ویسے میاں صاحب کے ساتھ دو تہائی اکثریت اور سادہ اکثریت ہونے کے باوجود سلوک یکساں ہی روا رکھا گیا۔ میاں صاحب کے شکوے بہت زیادہ ہیں۔ میاں صاحب کبھی صلح جو بھی نظر آتے ہیں اور کہیں جنگ جو بیشتر دھیمے لہجے میں گفتگو بھی کرتے ہیں اور پھر غصے میں بھی کم لحاظ رکھتے ہیں یعنی سب کو لتاڑ دیتے ہیں۔ پہلے پہل سیاسی مخالفین سے بھی یہی رویہ رکھتے تھے مگر آہستہ آہستہ کافی بدل چکے ہیں ،یہ اچھی پیش رفت ہے، اب ملک ایک لیڈر کی مرضی سے نہیں چلے گا ۔شاید یہی بات وہ سمجھ چکے ہیں دوسری اہم ترین پیشرفت ان کا وزیراعظم کے عہدے کے لیے اہل ہونا بھی ہے جو مستقبل میں عدالت سے مشروط ہے لگتا ہے۔ انہیں احساس ہوا ہے کہ فی الحال پارٹی بچائی جائے جو پنجاب تک محدود ہو چکی ہے۔ پہلے وہ پنجاب میں دوسری پارٹیوں کے لیے چیلنج تھے آج اًنہیں سب سے پہلے پنجاب سے ہی چیلنج درپیش ہیں ۔ قیاس ہے کہ شہباز شریف ایک دن کے قیام کے فورا بعد واپس لندن چلے گئے تھے جو یہی پیغام لے کر گئے تھے کہ فی الحال پارٹی پوزیشن بچائیں، چاروں صوبوں سے اکثریت حاصل کرنا کسی بھی پارٹی کے لیے ممکن نہیں رہا، بظاہر اب حکمرانی اتحادی حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہوگی، آصف علی زرداری نواز شریف ،فضل الرحمان آنے والے دنوں میں مرکزی حیثیت میں نظر ائیں گے۔ ویسے بھی اب ملک مزید کسی سیاسی کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 76 سالوں میں ملک سیاسی کشیدگی کی وجہ سے دنیا کے ساتھ چلنے سے قاصر رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے تلخ سیاست جس میں صرف ہیجان ہی رہا ہے وہ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کی سیاست تھی۔ ایک پارٹی منصوبہ شروع کرتی دوسری اقتدار میں ا کر نہ صرف اس منصوبے کو ختم کر دیتی تھی بلکہ کرپشن کے لا تعداد مقدمات بھی درج ہوتے ۔آج تک یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر کیے گئے کیسز ہی بھگت رہی ہیں اور بعد ازاں دونوں تسلیم بھی کر چکے ہیں کہ ہم سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہم نے ناجائز مقدمات بنائے ان مقدمات سے ایک تو اداروں اور عدالت کا وقت ضائع ہوا ہے دوسرا ان کی پارٹی پوزیشن بھی خراب ہوئی۔ اب ایک تو پنجاب کی حکومت حاصل کرنا اور دوسرا اس کے بل بوتے پر مرکزی حکومت تک رسائی حاصل کرنا میاں صاحب کی اولین ترجیح لگتی ہے بظاہر اس وقت تک آصف علی زرداری کو سندھ میں کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں فی الحال وہ اکیلے ہی وکٹ پر موجود ہیں مگر باقی صوبوں میں ان کی پارلیمانی پوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے وہ کافی کوشش کر چکے ہیں کہ کسی طرح پنجاب میں انہیں کچھ مل جائے مگر پنجاب کی سرکردہ شخصیات وہ اپنے ساتھ ملانے میں بری طرح ناکام ہیں یہی حال دوسرے صوبوں میں بھی ہے لہذا 16 مہینے جیسی حکومت تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ نمودار ہو سکی ہے کسی بھی بڑی پیشرفت کے امکانات تقریبا معدوم ہیں خان صاحب جیل میں ہیں بہت کچھ سیکھ اور سمجھ رہے ہیں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ انہیں برصغیر کی سیاست کا ادراک نہیں تھا۔ ورنہ وہ اتنے جذباتی نہ ہوتے یا نرگسیت کا شکار ہوتے یہاں ہر کسی کے ساتھ چلنا پڑتا ہے اور مسلسل چلنا بھی سہل نہیں، بڑے نشیب و فراز آتے ہیں اسی لیے تحمل اور بردباری سے کام لینا پڑتا ہے سڑکوں کی سیاست اور اقتدار کی سیاست میں بڑا فرق ہے سڑکوں پر آپ جیسا لہجہ اپناتے ہیں وہ اقتدار میں اکر ممکن ہی نہیں رہتا لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہوتے ہیں مگر وہ واپس گھروں کو ہی چلے جاتے ہیں یہی برصغیر کی ہزاروں سالہ تاریخ ہے۔ انہیں ان سے سیکھنا چاہیے کہ انہوں نے اس کا کیسے اور کتنا فائدہ اٹھایا اب بھی دیکھنا پڑے گا کہ خان صاحب کیسے چلتے ہیں یہ تمام سیاستدان سب ایک دوسرے کے متبادل بنتے ہیں اور پھر کیوں اقتدار میں ا کر ناگزیر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اگر ہم نے عالمی معاشی نظام کی موجودہ شکل سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے تو ان تمام سیاستدانوں کی اولین ترجیح دیرپا قابل عمل اور غیرمتنازعہ منصوبے ہونے چاہئے قوم ان سب کی سیاست سے بخوبی آگاہ ہے ویسے بھی اب یہ سب کون سی نظریاتی سیاست کررہے ہیں ۔نظریاتی سیاست تو اس خطے سے بھی نکل چکی اگر سیاست صرف اقتدار کے حصول کا ہی ذریعہ بن چکی ہے تو پھر اقتدار ہی اس ملک کی بہتری ترقی کے لیے استعمال کیا جائے ۔ترقی یافتہ ممالک اداروں کے ذریعے ملک چلاتے ہیں انہیں خود مختار اور مضبوط بناتے ہیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ملک چلتا رہتا ہے ۔ برطانیہ کی ہی مثال دیکھ لیں کتنے وزیراعظم بدل گئے نظام نہیں رکا سب سے اہم ترین ہمارا الیکشن کا نظام ہے جس پر صرف جیتنے والا اعتماد کرتا ہے بلکہ وہ بھی شکوہ کررہا ہوتا ہے کہ مجھے تو اس سے ذیادہ اکثریت ملنی تھی ہارنے والا تو پھر کیسے شکوہ کناں ہوگا آپ خود سوچ لیں سب کو علم ہے کہ کتنا مہنگا اور مشکل ہے۔ الیکشن میں بہت خون بہتا ہے دشمنیاں جنم لیتی ہیں آخر کب تک یہ سب کچھ چلتا رہے گا آخری بات کچھ عرصہ بعد ہی معلوم ہوگا کہ نوازشریف ضرورت ہے یا مجبوری ۔ ٭٭٭٭٭