پاکستان کا نظامِ عدل ہمیشہ سے اشرافیہ کے بنائے ہوئے قوانین اور اُصول و ضوابط کا یرغمال رہا ہے، لیکن چونکہ کچھ لوگوں نے اپنا رزق اس بات سے وابستہ کر لیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اسلام کے قوانین کو ملک کی ساری خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرائیں، اسی لئے اس معاملے میں بھی ان کا تختۂ مشق وہ چند قوانین ہوتے ہیں جو ضیاء الحق نے حدود کے تحت نافذ کئے تھے۔ حدود کے بقیہ قوانین پر بھی وہ جب موقع ملتا ہے زہر اُگلتے رہتے ہیں، لیکن جیسے ہی کوئی قاتل جس کا تعلق اشرافیہ کے طبقے سے ہو، اور وہ اگر اس بنیاد پر چھوٹ جائے کہ انہوں نے مقتول کے گھر والوں کو زبردستی اسے معاف کرنے پر مجبور کیا تھا، تو پھر گذشتہ پچھتر سالہ جرم کی دُنیا کو بھول کر بڑی بڑی زبانیں اسے صرف اسلامی قانونِ دیّت کا شاخسانہ قرار دینے لگتی ہیں۔ اس ملک کی تاریخ یہ ہے کہ قصاص اور دیّت کے قانون سے پہلے بھی روزانہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے قاتل عدالتوں میں عدم پیروی کی بنیاد پر بری ہوتے تھے۔ ایسی بریّت کے بارے میں ایک عمومی فقرہ بولا جاتا تھا ’’بیرون از عدالت تصفیہ‘‘ کر لیا گیا تھا۔ آج تو پھر بھی مقتول کے ورثاء کو ڈرانے دھمکانے کے ساتھ کاغذی طور پر ہی سہی کچھ نہ کچھ دیّت کی رقم ضرور دینا پڑتی ہے۔ لیکن حدود قوانین سے پہلے تو ایسے ایسے حربے استعمال کئے جاتے تھے کہ انہیں یہاں بیان کرنے سے خوف آتا ہے۔ سب سے پہلے تفتیش پر اثرانداز ہونے کے لئے پولیس کو سیاسی اور انتظامی دبائو کے ذریعے بھی اور کھلی رشوت سے بھی قابو میں کیا جاتا تھا، پھر اس کے بعد اپنے مخالف گواہوں کو دھونس، تشدد، اغواء اور لالچ کے ذریعے مجبور کیا جاتا کہ وہ لوگ اوّل تو گواہی نہ دیں اور اگر دیں تو پھر عدالت کے سامنے اپنے گذشتہ بیان سے مُکر جائیں۔ جب ایک ایسا جال بُن لیا جاتا، تو پھر مقتول کا مجبور گھرانہ جو پہلے ہی غمزدہ اور غربت کے ہاتھوں بے بس ہوتا تھا اس پر ہر طرح کا دبائو ڈال کر اسے مقدمے سے الگ تھلگ یا بے پروا ہونے کے لئے کہا جاتا۔ ایسا کرنے کے لئے ان پر ہر طرح کے حربے آزمائے جاتے، جن میں علاقہ بدری، بیٹیوں اور بیٹوں کا اغوائ، کاروباری مفادات پر حملے تک سب کچھ شامل ہوتا۔ اس کے بعد ’’معزز‘‘ عدالت میں تاریخ پر تاریخ پڑتی رہتی، پیشیوں پر ہرکارے آوازے بلند کرتے رہتے، لیکن عدالتی کٹہرے میں اوّل تو سنّاٹا چھایا ہوتا، یا پھر پولیس کا تفتیشی یا سرکار کا وکیل عدالت سے تھوڑی بہت ڈانٹ وغیرہ سُن کر تسلیم کر لیتا کہ اس نے چالان ہی غلط بنایا تھا۔ اس طریق کار سے گذشتہ سالوں میں ہزاروں لوگ عدالتوں سے عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیئے گئے، لیکن ان دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے کبھی بھی ایک لفظ اس ظلم کے بارے نہیں کہا یا لکھا۔ اس طرح کے مقدموں کا ’’بیرون از عدالت‘‘ اختتام ایک معمول ہوتا تھا اور آج بھی ہے۔ بڑے سے بڑے سیاسی قتل بھی اسی طریقے سے ختم کروائے گئے۔ صرف ایک مثال دوں گا کہ ستر کی دہائی میں طلبہ تنظیموں کا آپس میں لڑائی جھگڑا روز کا معمول تھا۔ ایسی ہی ایک لڑائی جھگڑے میں گورنمنٹ کالج لاہور کا ایک نوجوان مارا گیا۔ کیس بہت مضبوط تھا، گواہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ قاتلین اہم طالب علم رہنما تھے۔ ایک مشہور سیاسی شخصیت، جو ایسے معاملات میں ماہر تھی، اس نے اس مقدمے کو اپنے مخصوص ’’چودھریانہ‘‘ انداز میں ختم کرنے کی حامی بھری۔ وہ ایک ایک گواہ کے گھر پر گئے، انہیں لالچ، دھونس اور برادری کے پریشر سے رام کیا۔ صرف ایک گواہ نہ مانا۔ وہ جب عدالت میں گواہی کے لئے حاضر ہوا تو یہ صاحب خود عدالت میں آ کر اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور داخل ہونے سے پہلے اسے دھمکی بھی دی کہ اگر تم گواہی دو پھر دیکھو میں تمہارا کیسے جینا دُوبھر کرتا ہوں۔ گواہ بدک گیا اور مقدمہ عدم ثبوت کی بنیاد پر ختم کر دیا گیا۔ اس قتل کے ملزم آج بھی پاکستانی سیاست کے اُفق پر ’’جگمگا‘‘ رہے ہیں۔ پاکستان کا تفتیشی نظام اور عدالتی طریق کار ہمیشہ سے ایسے ہی اعلیٰ خاندانوں، سیاسی بزرجمہروں اور صاحبان حیثیت افراد کے ہاتھ میں موم کی ناک کی طرح گھومتا رہا ہے اور آج بھی گھومتا ہے۔ قصاص اور دیّت کے تحت معافی کے مقدمات شاید سال میں ایک یا دو ہوتے ہوں گے لیکن آج بھی لاکھوں ملزم ایسے ہیں، جنہیں عدمِ ثبوت اور تفتیش کی کمزوری کی بنیاد پر روزانہ بری کر دیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کے دانشور نے کبھی آج تک یہ بات نہیں کی کہ اس اینگلو سیکسن قوانین کی کتاب کو دریا برد کر دیا جائے۔ گذشتہ دنوں جب شاہ زیب کی قتل کے مقدمے میں بریّت ہوئی تو یار لوگوں نے حدود قوانین کے تمسخر کے ساتھ ایک اور نکتہ بھی نکالنا شروع کیا کہ چلو مقدمۂ قتل میں تو مقتول کے خاندان کو دھمکا کر اور پیسے دے کر راضی کر لیا گیا تھا، لیکن اس نے جو پوری قوم کے سامنے جارحانہ رویہ اختیار کیا، اس کی بنیاد پر عدالت کو اسے فساد فی الارض کے تحت سزا سنا دینی چاہئے تھی۔ اگر فساد فی الارض کی بنیاد پر ہی سزا دینے کے عمل کا آغاز کرنا ہے تو پھر ہر اس صاحبِ حیثیت شخص کو جس نے میل ملاپ کر کے خود کو مقدموں سے بری کروا لیا ہے اسے فساد فی الارض میں سزا دو۔ کیا کسی آمر کے ساتھ این آر او کر کے اپنے تمام مقدمات ختم کروا کر پوری قوم کو مایوس، غیر مطمئن کرنا فساد فی الارض نہیں ہے۔ اس سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ پر مقدمہ چلے، لیکن آپ کسی آمر سے سمجھوتا کر کے عدالتوں کی میز سے وہ مقدمہ اُٹھا کر لے جائیں۔ یہ تو ہر اس شخص کو خوفزدہ کرنا ہے جو کرپشن کے خلاف آواز اُٹھانا چاہتا ہے۔ کیا یہ فساد فی الارض نہیں ہے کہ آپ صدر اور پارٹی سربراہ ہوں اور ملک کا منتخب وزیر اعظم آپ کا اسقدر یرغمال ہو کہ وہ سپریم کورٹ کے کہنے پر سوئٹزرلینڈ کو ایک ایسا خط تک تحریر نہ کرے کہ اس چوری کے مقدمے میں حکومت ِ پاکستان بھی فریق ہے، کیونکہ مال یہاں سے لوٹا گیا ہے اور وزارتِ عظمیٰ قربان کر دے۔ کیا پانامہ کیس میں قانون کی بھول بھلیوں سے کھیلنا، پھر نیب کے قوانین میں ترامیم کر کے اپنے تمام مقدمات ختم کروانا فساد فی الارض نہیں ہے۔ اس سے بڑا فساد فی الارض اور کیا ہوگا کہ آپ بائیس کروڑ عوام کو یہ باور کرواتے ہو کہ تمہارے اُصول ہماری ٹھوکر پر ہیں، قوانین ہماری جیب میں ہے اور خبردار ہمیں ایمانداری کا درس دینا۔ کیا رائے ونڈ اور ایون فیلڈ کے فلیٹ فساد فی الارض کی تصویریں نہیں ہیں جو پوری قوم کا منہ چڑاتی ہیں۔ کیا بلاول ہائوس اور سرے محل دہشت اور خوف کی علامت نہیں ہے۔ روز سڑکوں پر چلتے ہوئے سکیورٹی کے قافلے جن کی وجہ سے لوگ ہسپتالوں میں نہ پہنچنے کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، یہ سب جس طرح پوری قوم کو دہشت اور خوف کا شکار کرتے ہیں کیا یہ فساد فی الارض نہیں ہے۔ اگر ہے تو پھر عدالتوں کو چاہئے کہ اگر کوئی پانامہ، سرے محل، ماڈل ٹائون، جامعہ حفصہ یا ایون فیلڈ میں قانونی موشگافیوں سے بچ نکلا ہے تو اُسے فساد فی الارض کے تحت سزاسنا دے، اور فیصلے میں لکھے کہ تم لوگوں نے اپنے اس روّیے اور اس فرعونی تصرف سے بائیس کروڑ عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ ان سے راتوں کی نیند اور دنوں کا چین چھین لیا ہے۔ تم اثرورسوخ سے تو بچ نکلے ہو لیکن عدالت تمہیں فساد فی الارض کے تحت عمر قید، جلا وطنی یا عبرتناک موت کی سزا سناتی ہے۔ (ختم شد)