اپوزیشن یک زباں ہو کر حکومت پر تنقید کر رہی، تحریک عدمِ اعتماد کا شور عروج پر ،اتحادیوں کے ساتھ ملاقاتیں جاری مگرعمران خان اب بھی وکٹ پر جم کر کھیل ر ہے ہیں۔آبائی علاقہ ہونے کے باعث ،منڈی بہاوالدین کی سیاست ،سیاسی خاندانوںکی کارکردگی، عوام سے رابطہ،دکھ سکھ میں شرکت ،ڈیرہ داری اور تھانہ کچہری سے بخوبی واقف ہوں۔وزیر اعظم کے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے ،نذر محمد گوندل ،میجر ذولفقار گوندل ،فیصل مختار گوندل ،امتیاز چوہدری ایم این اے،طارق تارڑ ایم پی اے ،وسیم افضل چن ایم پی اے اور طارق ساہی نے جس طرح محنت کی ، اس نے نہ صرف جلسہ کامیاب بنایا بلکہ ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔سینماگرائونڈ اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامنی کا شکوہ کر تی رہی۔اطراف کی سڑکیں بھی جلسے کا منظر پیش کر رہی تھیں۔غیر جانبدار حلقے ،منڈی بہائوالدین کی تاریخ کا بڑا جلسہ قرار دیتے رہے ہیں۔اپوزیشن کا کام تو تنقید ہے۔سو وہ اس میں مصروفِ عمل۔ عظیم دانشور نے کہا تھا:وہ لوگ جو دنیا میں کچھ نہیں کر پاتے ،وہ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں ۔اچھے کاموں کی مذمت اور لوگوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں ۔تاریخ میں پہلی بار منڈی بہائوالدین کے سرکاری سکولوں میں چھٹی نہیں کی گئی۔اس سے قبل سرکاری اساتذہ اور پٹواریوں کی جلسے میں حاضری لازمی ہوتی تھی۔95فیصد مقامی لوگوں نے شرکت کی ۔5فیصد قریب کے اضلاع سے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ساتھ لوگ آئے تھے ۔مقامی سیاستدانوں کی لڑائیاںہی پارٹی کو پستی کی جانب دھکیلتی ہیں۔منڈی بہائوالدین شہرسے ایم پی اے کی سیٹ بھی اسی بنا پر (ن) لیگ کو ملی۔کارِ سیاست میں ذاتی لڑائیوں کا انجام آخر کار خرابی پرہی ہوتا ہے۔ ہارنے والے تو ہار جاتے ہیں۔ جیتنے والے بھی ظفر مند نہیں ہوتے۔ خیبر پی کے بلدیاتی الیکشن تازہ مثال۔اگر یہی چلن رہا تو پنجاب میں بھی وہی حشر ہو گا۔ تحریکِ انصاف میں تنظیم کا سرِ سے فقدان۔ہرضلع میں ایم این اے ،ایم پی اے کے الگ الگ گروپ۔ہمہ وقت دست و گریباں ۔ زمانہ ہوا، لیڈر شپ کا رعب ختم ہو چکا۔ اب تو اور بھی برا حال۔ تحریکِ انصاف سوائے دھرنے کے دنوں کے، منظم کبھی نہ ہوئی۔ اب تو ایک جماعت بھی نہیں۔طرح طرح کے ٹولے ، تھوڑے سے اصلی پی ٹی آئی والے ، کچھ پیپلزپارٹی کے ، کچھ قاف لیگ کے ، بلوچستان کے موسمی پرندے ۔بدقسمتی سے جے یو آئی سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی میں ڈسپلن نہیں، سوائے جماعت اسلامی کے۔ منڈی بہائوالدین کے ساتھ یادیں وابستہ ہیں ۔ابتدائی عصری تعلیم ، حفظ قرآن جیسی نعمت یہی سے ملی۔جس طر ح ماں ،باپ، بہن بھائی، اولاد کی محبت فطری اور طبعی ہوتی ہے، اسی طرح آبائی علاقے سے محبت بھی بلا تکلف ۔انسان جس سرزمین پر آنکھیں کھولتا ، پروان چڑھتا ، خوابوں کو پورا کرتا اورخوبصورت رشتے بناتا ہے۔ ماں باپ کا پیار، بہن بھائیوںکی محبت، دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ،کیسے بھول سکتا ہے۔ ماں کی گود کی بہاریں تو یاد نہیں ،اس لیے شائدقدرت کے پاس باقی ماندہ زندگی میں اس سے بہتر کوئی تحفہ نہ تھا،تو وہ بچپن کی یادوںکو ذہن سے محو کردیتی ہے مگر بازار کی بہاریں یاد ہیں۔وہ تنگ وپیچ لیکن پیار بھری گلیاں ،ان میں بے محابا بھاگنا ،غل مچانا،دوستوں سے صلح وجنگ ،بزرگوں کی سرزنش۔گہیوں کے سنہرے خوشے،حد نگاہ تک پھیلے کھیت ،سورج کی تمازت میں لرزاں اُفق۔سب یاد ہے ذراذرا۔ اپنی مٹی کون بھول سکتا۔یہ مٹی اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے۔ وہاں کی گلیاں، پہاڑ، وادیاں، فضائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان، چٹانیں، پانی، یہاں تک درودیوارسے بھی عشق ہوتا ہے۔ایک شخص وطن سے کتنی محبت کرتا ہے۔ اس کا اندازہ یہا ں بیٹھ کر لگانا مشکل ہے مگر جب آپ وطن سے دور ہوں تو آپ کو اس کا ادراک ہو گا۔اوورسیز پاکستانیوں سے وطن کی محبت اور قدو منزلت کے بارے پوچھیں۔ عصرِ حاضر کے عارف نے کہا تھا :نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔نیکی کا پودا پھلتا پھولتا، محبت بھری چھائوں کا سائبان بنا رہتا ہے۔ میرے ساتھ پلے پوسے چند نوجوانوں نے جو آجکل دیار غیر میں ہیں ۔گائوں کی محبتوں کو واپس لٹانے کا فیصلہ کیا۔کدھر ویلفیئر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔جس نے گائوں کو ایک ماڈل ویلج بنانے کا عزم کیا۔کئی بچیوں کی شادیاں ،کورونا کے دنوں میں راشن ،مفت سلائی مشینیں،بزرگوں اور خواتین کیلئے مفت تعلیم کا بندوبست۔ ایک عدد ایمبولینس۔ اب میگا پروجیکٹ جنازہ گاہ۔۔قبرستان میں جانا انتہائی کم تھا مگر جب سے والدین کریمین ؒنے اسے اپنا مسکن بنایا، اب وہاں جائے بغیر سکون ہی نہیں ملتا۔ قبرستان میں حاضری کے بعداندھیرا چھٹ جاتا، روشنی کی کرنیںہالہ بنا لیتیں۔تادیر ماضی میں گم سم ہو جاتا ہوں۔والد محترم باطی خاں تارڑؒ اور والدہ محترمہ ؒ کے علاوہ آدھا خاندان وہاں آسودہ خاک ۔کدھر ویلفیئر سوسائٹی نے قبرستان کو بھی ماڈل بنا دیا ہے ۔صفائی ستھرائی میں اپنی مثال آپ ۔سکول کے اساتذہ کرام کی میگا پروجیکٹ کے نگران ہیں۔ گائوں کا ہر فرد ،ان اساتذہ کی نیک نامی کا معترف۔ خدا را اس پروجیکٹ کو متنازع مت بنائیں۔ اوورسیز پاکستانی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیںتاکہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ علماء کادنیاسے رخصت ہونا علم کا اٹھ جانااور قرب قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ۔ قلیل عرصے میںمیرے گائوں کدھر شریف سے جید علما رخصت ہوئے۔مولانا ظہور احمد قادریؒ ،مولانا محمد یونس فاروقی ؒ،ڈاکٹر فرخ حفیظؒ ؒ،نوجوان سکالرز محترم خالد محمودحیدرؒ ؒ۔جی ہاں نو خیز گلی۔ یہ روئے زمین کے لئے کتنے خسارے اور نقصان کی چیزہے۔ہرجاندار کو ایک دن فناہوناہے مگر بیک وقت بڑی تعداد میں علما ء امت کا دنیاسے جانانور علم کی لو مدھم ہونے، دنیا میںتاریکی چھاجانے،روشنی کے ختم ہونے اورانسانیت کے اس نعمت سے محروم ہونے کاباعث ہے۔بندگان خدا دنیا میں تشریف لاتے ۔ اپنے ذمہ کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے کر جنت مکین ہو جاتے ہیں۔ علماء کا دنیا سے اٹھنا المیہ نہیں ،ہر کسی نے جانا ہے۔افسوسناک امر، ان اکابرین کے کارناموں کا مٹناہے۔میری کدھر ویلفیئر سوسائٹی کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ علماکرام کے ناموں سے گائوں کے چوکوں کو منسوب کریں ۔ اول الذکر دونوں علما اور ڈاکٹر صاحب کا فیض ایک طویل عرصہ جاری رہا ۔میرے گائوں کی فضائوں میں ان کی محبت بھری آوازوں کا رس آج بھی کانوں میں گونجتا ہے۔ محترم خالد محمود حیدرؒ کو اجل نے کھل کر کھیلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ان کی کڑک دارآواز بلند و بالا مینار سے بلند ہوتی تو لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف لپکنے لگتے۔میرے ماموں ظفر اقبال کا معمول ہے کہ وہ خطبے کی آواز پر ہی گھر سے نکلتے ۔وہ گرج دار آوازسوئے حرم کی جانب رہنمائی کرتی تھی ۔ آواز نے سکوت اختیار کر لیا مگر اس کا جادو اب بھی فضائوں میں موجود ہے۔