سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ نوجوانوں پر نہیں بوڑھوں پر مشتمل ہے۔ نواز شریف ، آصف زرداری ، شہباز اور عمران سبھی ساٹھ سے اوپر یا اس سے بھی پرانے ہیں۔ ان میں سے ہی ایک سے ملاقات ہوئی۔ وہاں موجود ایک دھانسو میڈیا پنڈت کہنے لگے ’’آپ کی گفتگو اور تقریر سن کر ایسے لگتا ہے کہ آپ پچاس یا ساٹھ کی دہائی میں مشہور رسالے حُور اور زیب النسا بہت پڑھتے رہے ہیں۔ سیاستدان مُسکرایا اور کیا لگتا ہے ‘‘؟ میرا خیال ہے آپ نسیم حجازی کو بھی بہت پڑھتے رہے ہیں۔ جیسے آخری چٹان اور تلوار ٹوٹ گئی، محمد بن قاسم اور آپ کو کیسے اندازہ ہوا؟ آپ کے جملوں کی ساخت سے، ان کی تراش ہے،اُن میں استعمال ہونے والے لفظوں ، تراکیب اور ااستعاروںسے ۔ سیاستدان ’’ جی ہمارے گھر یہ رسالے یہ کتابیں پڑھی جاتی تھیں ذوق شوق سے ۔ میڈیا پنڈت نے اپنی ناک پر جمع ہوئی عینک کا فریم درست کیا اور مسکرانے لگے۔ یہ ایک جنریشن تھی۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی۔ اس سے اگلی جنریشن بھی انسپائر ہوئی۔ ابن صفی کے جاسوسی ناولوں سے جو عمران سیریز کی شکل میں مارکیٹ میں آتے تھے۔ عمران کے کردار کی ایجاد ابن صفی کا کارنامہ تھا۔ ایک سیکرٹ سروس تھی جس کا باس ایکس ٹو ہوتا تھا۔ عمران ٹیم کا حصہ بھی ہوتا تھا اور درپردہ ایکس ٹو کبھی ۔ ابن صفی صاحب نے دو اور بھی کردار ایجاد کیے۔ حمیدی اور فریدی۔ حمیدی ایک دل پھینک رومانٹک جاسوس تھا جبکہ فریدی عورت پروف سنجیدہ اور کڑک شخصیت کا مالک تھا۔ عمران، فریدی اور حمیدی کی شخصیات پر ہماری گھنٹوں بحثیں ہوتیں۔ ہمارے بعض کلاس فیلوز تو اپنی روزمرہ زندگی میں انہیں فالو اور کاپی بھی کرنے کی کوشش کرتے۔ابن صفی کی نقل میں کچھ اور مصنفین نے بھی نئے کردار متعارف کروائے۔ مگر جاسوسی ناولوں کے یہی کردار پاپولر ہوئے جن کا ابھی ذکر کیا۔ اُن دِنوں جاسوسی ناول لکھنے والوں کی بھرمار تھی۔ ایچ اقبال، اقبال پاریکھ، ایم اے راحت اور مظہر کلیم ایم اے فرام ملتان ۔ ایچ اقبال صاحب نے ایک نیا کردار متعارف کروایا۔میجر پرومو و کا ، جیالا، جان پر کھیل جانے والا محب وطن جاسوس، جب پاکستانی اُردو جاسوسی ناولوں کا ذخیرہ ختم ہو جاتا تو ہم تراجم کی طرف بھاگتے۔ کراچی کے جتنے بھی ناول نگار تھے اُن میں سے 100 میں سے 99 وہ تھے جن کے خاندان انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ لاہور کی آنہ لائبریریوں کو چلانے سے بھی زیادہ وہی لوگ تھے جو نستعلیق میں بات کرتے تھے۔ پی ٹی وی میں صرف آٹھ سے 9پرائم ٹائم ہوتا تھا۔ سینما میں فلم دیکھنے کے لیے ایک خاص عمر کا ہونا ضروری تھا۔ اور ریڈیو کے وہ نغمے ہوتے تھے جو سکول جاتے ہوئے اور سکول سے واپس آتے ہوئے گلیوں ، بازاروں اور محلوں میں ،گھروں میں ریڈیو پر بج رہے ہوتے تھے۔ جب مہدی ، حسن، نور جہاں، سلیم رضا اور احمد رشدی کو سنتے تو تصور ہی تصور میں اُن پر محمد علی، وحید مراد اور شاہد وغیرہ کو عکس کرکے خود ہی اپنے تخیل کے مطابقاپنے میں سُپر ہیرو تصور کرتے۔ صبح جب سب بچے سکول جا رہے ہوتے تو بھارتی نغموں ایک پروگرام تعمیل ارشاد چل رہا ہوتا۔ پروگرام پیش کرنے والے اسقدر باکمال انائونسر ہوتے کہ دِل اور ذہن دونوں کو اپنی گرفت میں تھام لیتے۔ پاکستانی ریڈیو پر ریحان اظہر، عابد علی، شجاعت ہاشمی، یاسمین طاہر اور عائشہ تسلیم ہوتے تو آل انڈیا ریڈیو پر بنا کا گیت مال کے امین سہانی صاحب ۔ ذرہ بچگانہ ذوق اور عمر کے ساتھیوں کے لیے مقبول جہانگیر کی داستان امیر حمزہ بھی تھی، اسکی دِل چسپی اسکے بعض کرداروں میں تھی اور کہانی کے بطن سے ایک اور کہانی نکل آتی تھی۔ اُن دِنوں چھوٹے بچوں کے لیے بھی کچھ دِل چسپ اور سبق آموز کہانیوں والے رسالے ہوتے تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ، نونہال اور کھلونا ایسے ہی رسالے تھے جیسے بچوں کی دنیا ۔ ہم نویں اور دسویں کلاس میں پہنچے تو پتہ چلا کہ کہانیوں کی دنیا میں، بلوغت کی سرحدوں پر ، کہانیوں کی مارکیٹ میں ، ستاروں کے نئے جہاں اور بھی ہیں۔ آنہ لائبریری والوں نے بتایا کہ ناول ختم ہو گئے تو کیا ہو، یہ ڈائجسٹ حاضر ہیں۔ پہلے پہل تو عالمی ڈائجسٹ تھا،پھر سیارہ اُردو ڈائجسٹ فرام لاہور مگر پھر کراچی سے ڈائجسٹوں کی لائن لگ گئی اور اُن میں غیر ملکی کہانیوں کے ایسے ایسے ترجمے کہ تخیل اور شعور کو ایسے کرداروں اور کہانیوں کے پلاٹس سے آشنا کیا کہ مت پوچھ ۔شکیل عادل زادہ کا سب رنگ ڈائجسٹ پھر جاسوسی ڈائجسٹ ۔ سسپنس ڈائجسٹ، الف لیلہ ڈائجسٹ ، خواتین کے لیے خواتین ڈائجسٹ اور پاکیزہ ڈائجسٹ بھی تھے۔ عالمی ڈائجسٹ، سسپنس، جاسوسی اور سب رنگ باکمال تھے ۔ ان میں تراجم اور طبع زاد کہانیاں چھپتی تھیں۔ ان میں پاک و ہند کے بعض نامور لکھنے والوں کی منتخب کہانیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ عالمی ڈائجسٹ ترتیب اور تدوین میں جون ایلیا۔اُنکی نصف بہتر زاہدہ حنا اور شکیل عادل زادہ صاحب کی کاوشیں ابتدا ہی سے شامل حال تھیں۔ مارکیٹ میں طلب بھی تھی اور جگہ بھی۔ باکمال لکھنے والے سامنے آئے ۔ کہانیوں کے کرافٹ، واقعات اور بہائو کا جیسے ایک مقابلہ سا تھا۔ کوئی موپاساں کی کہانیاں پیش کر رہا ہے ،کوئی سمر سٹ ماہم کے ترجمے ۔ ڈائجسٹوں کے مدیر حضرات اچھا ترجمہ کرنے والوں ، اچھی کہانی دینے والوں، اچھا لکھنے والوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ شان الحق حقی،قبال پاریکھ ،ایچ اقبال، ایم اے راحت اور بہت سے نام بھول رہا ہوں،یہ سب ایسی ایسی کہانی اور کرافٹ کا رنگ دکھاتے کہ اللہ اللہ ۔ ایک بات عرض کردوں کہ ڈائجسٹوں میں جو کہانی لکھی جا رہی تھی وہ ادب کا حصہ ہے یا نہیں، اس پر بڑے ادیبوں کا رویہ یہ تھا کہ صاحب یہ ادب ہو ہی نہیں سکتاحالانکہ ڈائجسٹوں میں سب نہیں مگر کچھ لکھاری باکمال تھے جن میں الیاس سیتا پوری، ضیا تسنیم نگرامی اور ماضی قریب میں علی سفیان آفاقی صاحب نے جو لکھا اس سے بہت سوں کے قلم کی نوک پلک اور عین غین سیشن قاف درست ہوئی۔سب رنگ اور شکیل عادل زادہ صاحب کی کہانی یہاں نہیں سمائے گی،اس لیے پھر سہی۔