سیانوں کا ایک گائوں تھا۔اپنے سماجی‘ معاشی و جمہوری مسائل کے حل کے نت نئے طریقے نکالنے میں یہاں کے لوگ مشہور تھے۔ایک بار یوں ہوا کہ کسی غریب کے بکرے نے ایک گھڑے میں سر پھنسا لیا۔لوگوں نے کبھی بکرے کے سر کو کھینچا کبھی گھڑے کو پکڑ کر زور لگایا۔سب طریقے ناکام ہو گئے تو ایک بچے نے مشورہ دیا کہ گھڑا توڑ دیا جائے۔سب اس کے مشورے پر ہنسنے لگے اور اسے شرمندہ کرتے ہوئے کہا کہ یوں تو گھڑا ضائع ہو جائے گا۔بچہ شرمسار ہو کر کونے میں بیٹھ گیا۔گائوں والے بکرے کو لے کر سب سے سیانے اور ضعیف شخص کے پاس پہنچ گئے۔اسے مسئلہ بتایا۔ بزرگ سیانا کئی بار اسمبلی میں جا کر تقاریر کر چکا تھا۔اس کے سفید بال اس کی بزرگی ظاہر کرتے تھے۔سب اس کا احترام کرتے۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا: ایک چھری لائو ۔چھری لائی گئی اور بکرے کی گردن کاٹ دی گئی۔بکرے کا سر گھڑے کے اندر جاگرا۔بزرگ سیانے نے کہا کہ گھڑا توڑ دیا جائے۔ اس کی معاملہ فہمی کے معترف گائوں والوں نے گھڑا توڑ دیا۔بکرے کا سر گھڑے سے نکل آیا۔سب بزرگ کی دانش مندی اور معاملہ سلجھانے کی صلاحیت کے نعرے بلند کرتے رخصت ہوئے۔ وہ بچہ جو کچھ دیر پہلے اچھا مشورہ دینے کے قابل تھا وہ بھی عقل کے اندھوں پر مشتمل ہجوم میں گم ہو گیا۔ حالات سے اس حکایت کا تعلق یہ ہے کہ ان دنوں پاکستان کا سر گھڑے میں پھنسا ہوا ہے اور سیانے سر کو گھڑے سے نکالنے کے مشورے کر رہے ہیں۔کئی ایک نے مشورہ دیا کہ خود غرضی ترک کر دیں لیکن وہ سیاست دان ہی کیا جو کسی کو اپنے سے زیادہ سوجھوان تسلیم کر لے ۔پاکستان کے مسائل سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ بن چکے ہیں۔بحرانوں کی شدت دیکھتے ہوئے کچھ حلقے پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینے کی بحث ایک بار پھر تازہ کرنے لگے ہیں۔ درپیش حالات کی سنگینی دکھا کر ہمارے بچوں کی عقل ماری جا رہی ہے۔ان کے قابل قدر مشوروں پر انہیں شرمسار کیا جا رہا ہے۔میرے ایک دوست نے اس سلسلے میں میری رائے طلب کی ہے ،پوچھاہے کہ پاکستان کیا واقعی ناکام ریاست ہے ؟ان کا سوال چونکہ کروڑوں لوگوں کے جذبات کے ساتھ جڑا ہوا ہے اس لئے کچھ پس منظر واضح کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ پاکستان کا بننا انگریز اور کانگرس دونوں کو قبول نہیں تھا۔برطانیہ تازہ تازہ دوسری جنگ عظیم سے نکلا تھا۔اسے خدشہ تھا کہ ہندوستان تقسیم ہوا تو یہ خطہ کمزور ہو جائے گا۔کمزور ہندوستان کمیونسٹ سوویت یونین کا آسان شکار ثابت ہو گا اور اس کی سابق نو آبادی اس کے مخالف بلاک میں شامل ہو جائے گی۔کانگرس کا خیال تھا کہ محمد علی جناح ہندوستان کی ہزاروں برسوں کی وحدت کو تقسیم کر رہے ہیں‘ کانگرس مسلمانوں کے ان خدشات کا جواب نہیں دے پا رہی تھی کہ اردو ہندی تنازع‘ تقسیم بنگال‘ گائو رکھشا تحریک اور مغربی جمہوریت کی صورت میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو پائے گا۔ جب پاکستان کا بننا لازم ہوا تو ایسے دفاعی‘ جغرافیائی اور مالیاتی مسائل پیدا کئے گئے کہ پاکستان کا وجود خطرے میں رہے۔کانگرسی رہنما ابوالکلام آزاد نے پاکستان ٹوٹنے کی پیش گوئی اسی تناظر میں کی تھی جو کامیاب بھی ثابت ہوئی لیکن یہ سب مشکلات پاکستان کو فیل ریاست ثابت نہیں کرتیں۔ پاکستان بن گیا لیکن ساتھ سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔قائد کا انتقال اہم موڑ ثابت ہوا۔آئین کی تشکیل میں تاخیر نے مذہبی‘ لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دی۔وجہ یہ تھی کہ سماج اور ریاست کے رشتے کو متوازن رکھنے والی دستاویز اور ضابطے موجود نہ تھے۔آئین کی عدم موجودگی میں اہل پاکستان کے پاس صرف نوآبادیاتی دور کی روایات تھیں۔ان روایات میں پولیس کے ذریعے لوگوں کو ہراساں رکھنا‘ افسر شاہی کا بے لگام رہنا‘ حکومت کے نام پر چند خاندانوں کا اقتدار ،جو پہلے انگریز کے وفادار تھے۔ نوزائیدہ پاکستان کا نظام بن رہا تھا۔عوام کو اقتدار سونپا گیا نہ گروہی و نسلی سیاست کا راستہ روکا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے سے ملک میں تعصبات کے کئی مرکز بن گئے ۔ پاکستان کمزور اور انگریز کے لئے ناقابل قبول تھا لیکن اسی کمزور ملک نے اپنے سے کئی گنا بڑے بھارت سے آدھا کشمیر آزاد کرا لیا۔پاکستان نے سقوط کا زخم کھایا اور پھر جوہری طاقت بن گیا۔بھلے بھارت کئی حوالوں سے پاکستان سے زیادہ ترقی کر گیا لیکن دفاعی لحاظ سے پاکستان کو دبا نہیں پایا۔ خطرات کے مقابل زندہ رہنے کی یہ وجہ پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینے والوں کو غلط ثابت کرتی ہے۔ دفاعی شعبے کی طرح سیاسی و جمہوری نظام ملک کو لاحق خطرات کا حل تلاش نہیں کر سکا۔ آئین میں عوام کو جو اختیارات سونپے گئے ہیں وہ انہیں دیے نہیں جا رہے۔1973ء کا آئین پاکستان کے سماج کو آگے بڑھانے کے لئے جو سفارشات اور ضمانتیں فراہم کرتا ہے پارلیمنٹ ان کی پاسداری نہیں کر سکی۔ عوام اور برسر اقتدار طبقات کے مفادات میں ایک بڑی خلیج حائل ہو گئی ہے۔جو حکومت کر رہے ہیں وہ عوام کے نمائندے نہیں رہے۔عام کی نمائندگی کا نظام خواص کی نمائندگی کا نظام بن کر رہ گیا ہے۔کہنے والے اسے ریاست کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔سوچنے والے اسے نظام کی خرابی سمجھتے ہیں۔ریاست ناکام ہو تو لوگوں میں بقا کی آرزو دم توڑ جاتی ہے۔ نظام میں خرابی ہو تو عوام جدوجہد کا راستہ ترک نہیں کرتے۔لوگوں کی امید زندہ ہے۔وہ وقفے وقفے سے اپنے حقوق سلب کرنے والی قوتوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔زندہ رہنے کا ثبوت دیتے ہیں‘ مطالبے کرتے ہیں‘ اپنی سلامتی کے اندرونی و بیرونی دشمن کے دانت کھٹے کرتے ہیں۔استحصالی نظام کو بدلنے کی کوششیں کرتے ہیں۔یہ زندگی کی علامتیں ہیں کہ سماج کا سیاسی و سماجی شعور زندہ ہو۔اپنی قومی شناخت سے وابستگی باقی رہے تو ایسی ریاست کو ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔