نصیحت اور وصیت ہم قافیہ اور ہم ردیف تو ہیں مگر ان کا استعمال بہت مختلف ہے۔ نصیحت عام طور پربزرگ لوگ اپنے سے چھوٹوں کو کرتے ہیں ۔ نصیحت کا مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ نیک مشورہ دینا ہوتا ہے یا کسی مخصوص معاملے میں اپنے سے کسی چھوٹے کو تنبیہ کرنا ہوتا ہے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ جس کو نصیحت کی جائے وہ چھوٹا ہونے کے باوجود اسے قبول بھی کر لے۔ آپ کی بات کو احترام دے ،آپ کا اچھا مشورہ مان لے۔ مگر اب عجیب دور ہے ۔نوجوان نسل کے لوگ نہ تو بزرگی کا احترام کرتے ہیںاور نہ ہی اچھا مشورہ قبول کرنے کو تیار ہوتے ہیں ۔ خصوصاً ہماری نوجوان نسل تو کسی مشورے،کسی اچھی بات اور کسی تنبیہ کو خاطر ہی میں نہیں لاتی بلکہ الٹا نصیحت کرنے والے کو عقل سے عاری قرار دیتی ہے۔شاید اس لئے قتیل شفائی نے بہت خوب بات کی ہے کہ: میں آج بھی بھولا نہیں آداب جوانی میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا وصیت وہ دستاویز ہوتی ہے جو انسان مرنے یا سفر میں جانے سے پہلے آخری لمحوں میں باقاعدہ رقم کرتا ہے۔جس کی رو سے وہ اپنے بعد اپنی جائیداد اور اثاثہ جات کی تقسیم اپنے وارثوں اور عزیز و اقارب یا کسی کے بارے میں کرتا ہے۔اور انہیں ہدایت کرتا ہے کہ میرے بعد ایسا کرنا اور ایسا نہ کرنا۔عام طور پر زیادہ تر لوگوں کی وصیت اپنے بچوں اور عزیزو و اقارب کے بارے ہی میں ہوتی ہے مگر دنیا میںبڑے عجیب عجیب لوگ ہیں اور ان کی وصیتیں ان سے بھی عجیب تر۔ان عجیب وصیتوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ آپ ان نصیحتوں کو پڑھتے جائیں اور مسکراتے جائیں۔ کیا عجیب اور شاندار خیالات لوگوں کے ذہنوں میں پرورش پاتے او دنیا کو محظوظ ہونے کا سامان کرتے ہیں۔ کینڈا کا ایک وکیل جس کا نام (Charles Vance Miller) تھا۔ وہ وکیل کے علاوہ سرمایہ کار بھی تھا۔ٹورنٹو کے علاقے میں اس کی ایک بہت بڑی فیکٹری بھی تھی، جس میں شراب اور جوس تیار ہوتے تھے۔ اسے ریس کے گھوڑے رکھنے کا شوق بھی تھا۔1915ء میں اس کے ایک گھوڑے نے کینڈا کی سب سے بڑی ریس بھی جیتی۔اس کے علاوہ اس کی وسیع جائیداد بھی تھی۔ چارلس جب 1926 میں فوت ہوا تو اسکی وصیت بھی بڑی مختلف تھی۔ اس نے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ ان عورتوں کے نام موسوم کیا جو اگلے دس برسوں میں سب سے زیادہ بچے جنم دیں گی۔اس کی وفات کے بعد جب اس چیز کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تو گیارہ عورتوں نے بچے جنم دینے کی اس ریس میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ چند سالوں میں سات عورتیں کم بچے پیدا کرنے کے سبب ا س ریس سے باہر ہو گئیں مگر چار عورتیں آخر تک مد مقابل رہیں۔ دس سال مکمل ہونے پر ان چار میں سے ہر عورت نے نو بچوں کو جنم دیا۔ چنانچہ ان چاروں عورتوں کو مشترکہ فاتح قرار دیا گیا اور اعلان کردہ رقم چاروں عورتوں میںبرابر تقسیم کر دی گئی۔ ہر عورت کے حصے میں ایک لاکھ دس ہزار ڈالر آئے جو 1926ء کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی جو ہر عورت نے قبول کی۔ جرمنی کا ایک شاعرہنرچ (Heinrich) اپنی بیوی کے رویے سے بہت نالاں تھا۔ روز روز کے جھگڑوں اور بیوی کی بد زبانی سے تنگ مرتے ہوئے اس نے ایک عجیب وصیت کی جس وصیت کے بارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ وصیت در حقیقت مرنے کے بعد بیوی کو ذلیل اور بے عزت کرنے کی ایک کوشش تھی۔ اس نے کہا کہ میری ساری جائیداد میری بیوی کو جائے گی بشرطیکہ وہ دوسری شادی کرے اور اس نئے خاوند کے ساتھ عمر گزارے۔ بستر مرگ پر کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں یہ سب اس لئے چاہتا ہوں کہ اس عورت کے غلط رویے اور اس کی بد زبانی کو محسوس کر کے کوئی شخص تو ایسا ہو گا جو مجھے یاد کرے گا اور اسے میرے دکھ کا احساس ہو گا۔اسے پتہ چلے گا اور احساس ہو گا کہ میں نے کتنی تلخ زندگی گزاری۔ کیتھ اوون (Keith Owen)ایک ارب پتی شخص تھا اسے ڈوون (Devon) کے علاقے سڈھ متھ (Sidmouth) کا قصبہ بہت پسند تھا۔ وہ ہر سال یہاں چھٹیاں گزارتا تھا۔مرنے سے پہلے اس نے اپنی تمام جائیداد اور رقم اس قصبے کے نام کر دی اور وصیت کی کہ اس رقم پر جو سالانہ ایک لاکھ پچیس ہزار پونڈ سود آئے گا اسے اس علاقے کو پھولوں سے سجانے پر خرچ کیا جائے۔ چنانچہ یہ ساری رقم سڈ ویلی ایسوسی ایشن کو دے دی گئی۔ جنہوں نے سالانہ دس لاکھ پھولوں کے بلب اس علاقے میں ہر سال لگائے اور بقیہ رقم اس قصبے اور اس سے ملحق دو چھوٹے چھوٹے گائوں تھے ان پر خرچ کی۔ جس کے نتیجے میں وہ قصبے جو پہلے ہی بہت شاندار تھا، اب مزید نکھر کر آنے والوں کی مزید توجہ کا باعث ہوا۔ ارب پتی لیوآنا ہمسلے(Leona Helmsley) ہوٹلنگ کا کاروبار کرتا تھا۔ اسے کتے رکھنے کا شوق تھا۔اس نے مرنے سے پہلے اپنے کتے کے نام پر چار ارب ڈالر کی رقم وصیت کی کہ اس کے بعد کتے کی بہتر دیکھ بھال ہو سکے۔بقیہ رقم اس نے اپنے پوتوں کو اس شرط پر دی کہ وہ ہر ہفتے اپنے باپ کی قبر پر جایا کریں گے۔ کتے کے حصے کی رقم یقیناً اسے ملنی تھی جس کے پاس کتا ہو۔ چنانچہ کتے کو بہت سے لوگوں نے اغوا کرنے کی کوشش کی اور اس رقم کی وجہ سے کتے کی زندگی خطرے میں آ گئی۔ اس خطرے کے پیش نظر ایک عدالت نے کتے کے حصے کی رقم بہت زیادہ قرار دیتے ہوئے اسے کم بھی کر دیا مگر کتے کی حفاظت جب تک کتا زندہ رہا بہت مشکل رہی۔ ولنگٹن بڑت ایک ارب پتی تھا جو 1919 میں فوت ہوا۔ اس کی وصیت تھی کہ اس کی چھوڑی ہوئی رقم اس کے پوتے کی وفات کے 21سال بعد اس کے وارثوں کو ملے گی۔ کسی کو اس رقم کے بارے میں اس بات کے علاوہ کچھ پتہ نہیں تھا۔1989 میں اس کا پوتا فوت ہو گیا۔جس کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ نومبر 2010 میں اکیس سال کے خاتمے پر وہ رقم پتہ چلی چنانچہ ڈھونڈھ کر اس کے مختلف رشتہ دار وارثوں کا پتہ چلایا گیا اور انہیں خوشخبری سنائی گئی کہ وہ ونگٹن کی چھوڑی ہوئی بے پناہ دولت کے وارث ہیں۔یہ تو چند باتیں میں نے لکھیں ہیں۔ تاریخ ایسی لاکھوں وصیتوں سے بھری پڑی ہے۔ ٭٭٭٭٭