وادی ِجن کے بعد گروپ کے چند دوستوں کے ساتھ قلعہ خیبر جانے کا پروگرام تھا۔ہمارے دوست رضوان، کرنل شاہد، انجینئر بشیر اور ظہور انجنئیر تو تیار نہیں تھے تا ہم اپنے ٹؤر آپریٹر کے ساتھ خیبر جانے پر رضامندی ظاہر کر چکے تھے۔ٹور آپریٹر بہت کایاں آدمی تھے۔ان کے دو بیٹے بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ ان سے بھی دو پیر آگے تھے۔ہم ان کو اپنے خفیہ نام سے یاد کرتے تھے۔ان کے سامنے بھی ان کے خفیہ نام لیتے تو ان کو خبر نہ ہوتی۔وہ تینوں باپ بیٹا عربی توپ پہنتے تھے۔سو ہم چھوٹے بیٹے کا نکّی توپ دوسرے کائوڈی توپ اور ان کے والد کا بہت وڈی توپ رکھا ہوا تھا۔وڈی توپ نے مذہبی امور اپنے ذمے لیے ہوئے تھے اور وہی خیبر جانے کے لیے حجاج کو وہاں جانے پر رضامند کر رہا تھا۔جہاں انہیں چار پیسے بچتے تھے وہ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے تھے اور کسی تنقید کی پروا نہیں کرتے تھے۔ ہمارے ساتھی ظہور جو پہلے بھی حج اور کئی عمروں کی سعادت حاصل کر چکے تھے، دل کے حساب سے سب سے بڑے تھے کہ خرچ ورچ میں کھلے ڈلے تھے۔جہاں کبھی کھانے کا بل ادا کرنا ہوتا یا ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنا ہوتا وہی ادا کرتے۔راولپنڈی کے رہنے والے ہیں اور ترنول کے مقام پر اپنا بزنس کرتے ہیں۔سب سے پہلے انہوں نے ہی ٹؤر آپریٹر کی غیر ذمہ دارانہ رویے کی نشاندہی کی تھی۔ہوا یوں کہ جب وہ پہلے دن ائرپورٹ سے سیدھے ہوٹل میں پہنچے تو دوپہر کا کھانا لگ چکا تھا۔چونکہ پہلا دن تھا حجاج کے لیے اعلٰی لنچ کا انتظام کیا گیا تھا۔میز پر اور ڈشز کے علاوہ سیخ کباب بھی تھے۔ظہور بھائی کے ساتھ ایک اور انجینئر بشیر بھی تھے۔ وہ دونوں یک جان دو قالب تھے۔ ان میں جان یہی ظہور بھائی ہی تھے۔ان دونوں نے بھی ہمارے کمرے میں ہی ٹھہرنا تھا وہ اپنے بیگ اور سامان کمرے میں رکھ کر کھانا کھانے ہی لگے تھے اور دو تین کباب کی سیخیں اپنی پلیٹ میں ڈالی تھیں کہ ٹؤر آپریٹر دور سے عقاب کی طرح جھپٹے اور گویا ہوئے سارے کباب تم نے ہی کھا جانے ہیں۔ایسی بیہودہ حرکت کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔کچھ کہنے کی بجائے ظہور نے کھانا وہیں چھوڑا اور اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ بازار سے کھانا کھانے نکل گئے۔الا ماشااللہ ٹؤر آپریٹر جیسے مطمئن تھے ویسے ہی اب تھے۔انہیں اس بات کی پروا ہی نہیں تھی کہ انہوں کے کیا کہہ دیا ہے اور گروپ کے دوسرے لوگ دیکھ رہے ہیں وہ کیا کہیں گے۔ان کی عجیب اور ناشائستہ عادت تھی کہ جب بھی کھانے کا وقت ہوتا آ دھمکتے اور لوگوں کو کھاتا دیکھتے اور دھیان رکھتے کہ کون کیا کھا رہا ہے؟۔ خیبر جانے کے لیے درمیانی توپ گاڑی کا انتظام کرنے میں لگے تھے گاڑی کا انتظام ہو گیا تو ہم سے طے شدہ نرخ سے زیادہ رقم بٹورنے کے چکر میں کبھی ایک اور کبھی دوسرا بہانہ گھڑ لیتے تھے تا آنکہ ظہر کا وقت ہوا اور مسجد نبوی ﷺ چلے گئے۔اب خیبر جانے کے لیے ظہر کے بعد کا وقت طے ہوا۔نبی پاکﷺ کی مسجد میں نماز ادا کر کے ہوٹل آ گئے۔طے یہ ہوا تھا کہ لنچ کے بعد روانگی ہے۔ابھی کھانے میں آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ہم نے اپنا بیگ نکالا اور نیر ندیم کے تحفے میں دیے ہوئے بسکٹوں کا ڈبہ نکالا اور نیر ندیم کو یاد کیا اور ان کے لیے دعائیں کیں۔جوں جوں بسکٹوں کی لذت حلق میں اترتی تھی دعائیں از خود جاری ہو ہو جاتیں۔نیر ندیم ہمارے کولیگ ہیں۔انہیں پھول نگر برانچ اتنی راس آئی کہ اپنی ساری عمر پھول نگر برانچ میں گزار دی۔ جس محکمے میں ہم نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے گیارہ برس صرف کیے وہاں کم و بیش سارے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں جہڑی اٹ پٹو اوتھے لعل (جو اینٹ اکھیڑیں اس کے نیچے لعل)اگر کہیں درست بیٹھتا ہے تو وہ وہی ہمارا گیارہ سالہ محکمہ تھا۔نیر ندیم ان سے الگ تھے۔ایک دھیلے کی کرپشن کے روادار نہیں تھے۔نہایت دیانت دارانہ زندگی گزاری۔صوفیا سے عشق تو جیسے ان کی گھٹی میں تھا۔جب ہم نے حج کے سفر کا ارادہ کیا تو بہت ساری کتب کتابچے، حج کی گائڈز اور حد یہ کہ وہاں مقدس مقامات پر پہننے والے جوتے بھی لے آئے۔ہمارے مہربان دوست اور کولیگ الطاف علوی نے بھی راولپنڈی سے اپنے عزیز سے حج سے متعلقہ سی ڈیز عنایت کیں۔نیر ندیم کے بسکٹ تو وہاں برینڈ ہی بن گئے۔جب کھانے میں دیر ہوتی تو دوست احباب کہتے " کڈھو جی نیر دے بسکٹ" نکالیں نیر کے بسکٹ۔بسکٹ کیا تھے کوئی کھوئے ملائے والی قلفی تھے۔جیسے بچپن میں قلفی کھوئے ملائے والی کا نعرہ مستانہ سن کر ہم بے چین ہو جاتے تھے ویسے ہی نیر کے بسکٹوں کا نام لیتے ہی منہ میں پانی بھر آتا۔ جس محکمے میں ہم نے پیشہ وارانہ زندگی کے گیارہ سال گزارے وہاں عجیب ہی اصول و ضوابط تھے۔الطاف علوی کے والد بزرگوار اکبر علوی ( وہ خود محکمے کے اعلٰی ترین عہدوں پر فائز رہے) کہا کرتے تھے کہ یہ محکمہ ملک پاکستان کا ریپلیکا ہے۔جہاں قانون ہے بھی اور نہیں بھی آئین ہے بھی اور نہیں بھی۔ اخلاقیات ہے بھی اور نہیں بھی علی ہذا القیاس۔جب ہم وطن عزیز کے کسی سرکاری شعبے کو دیکھتے ہیں تو وہاں قانون کا نفاذ ہے بھی اور نہیں بھی۔ایک سائل کے لیے وہی قانون گلے کا پھندا بن جاتا ہے اور وہی قانون ایک ملزم کو بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ہمارے اس ادارے میں جو رشوت خور نہ ہوتا اسے محکمے میں فئیر آدمی کہا جاتا۔ نیر ندیم انہی چند فیئر لوگوں میں شامل تھا۔ایسے لوگوں سے ہی وہ محکمہ چل رہا ہے اور ہمارا معاشرہ جو اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے مگر ایسے لوگوں کے دم سے ہی اس کا سانس ابھی اکھڑ نہیں رہا۔ وادی جن جانا زیارت تھی یا محض سیر اس کے بارے میں ہم کچھ عرض نہیں کر سکتے محض اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ہمارا خیال ہے کہ یہ چند دن گھنٹوں کی سیر ہی تھی مگر حجاز مقدس کے ایک مقام ہونے کے ناطے زیارت گاہ کہلانے کی مستحق ہے کہ دنیا میں ایسے اور بھی کئی مقامات ہیں۔اس شش و پنج سے نجات نیر برینڈ کے بسکٹوں نے ہی دی۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں نیر ندیم کی طرح کے اور بہت کم اشیا ہوتی ہیں نیر کے بسکٹوں کی طرح کی۔وہ بسکٹ بھی ایک برینڈ تھے اور نیر بھی ایک برینڈ ہے۔کم کم سا اور لاجواب لاجواب سا۔(جاری)