میرے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی بات یہ ہے کہ ہم کچھ ٹاک شوز کی وجہ سے سیاسی تفریقات کا شکار ہوکر پریکٹیکلی نفرتوں کے راستے سے ہوتے ہوئے خانہ جنگی کی طرف چل پڑیں گے۔ مَیں ڈراموں کی بجائے نیوز اور ٹاک شوزباقاعدگی سے دیکھتی ہوں۔ بیشتر انٹرویو کرنے والے اپنی گفتگو سے نام نہاد سیاسی رہ نماؤں کو اس طرح گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بچ نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں بچتی۔ ریٹنگ کے چکر میں ایک ٹی وی چینل دوسرے سے بازی لے جانے میں اخلاقیات کی سب حدیں پار کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ ٹی وی سیٹ میں ایک بڑا سا کمرا بنا ہوتا ہے جہاں پْشت پر ایک بڑی سی سکرین لگی ہوتی ہے۔ میزبان یا اینکر پرسن اپنی بڑی سی کرسی پر براجمان ہوتا ہے۔ دائیں بائیں مہمانانِ گرامی کی کرسیاں لگی ہوتی ہیں۔ میزبان آغاز کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ فلاں فلاں معزز مہمان شامل ہیں۔ وہ ناظرین سے مخاطب ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے۔ آپ کی پارٹی یا آپ لوگ اتنے انقلابی اور جمہوری ہیں کہ آپ کے لیڈر کہتے ہیں کہ وہ تیس سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہیں اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ملک کی تباہ حالی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ دوسرا سوال اْٹھتا ہے کہ آپ کے قائد 21اکتوبر کو آرہے ہیں آپ کیسے اْن کا استقبال کریں گے؟دوسری پارٹی کے لوگ یعنی حزبِ اختلا ف جواب دیتے ہیں کہ وہ تو لیڈر ہیں ہی نہیں وہ تو مفرور ہیں۔ پچاس روپے کے اسٹاپ پیپر پر ضمانت کروا کر علاج کروانے گئے اور آج تک واپس نہیں آئے۔ یوں تو پوری دْنیا میں سیر سپاٹے کررہے ہیں۔ ایک بولتا ہے ملک کی زمین اس وقت بے آئین ہے۔ 90دن میں الیکشن آئینی تقاضا ہیں۔ عدل کے نظام کا تقاضا ہے کہ انصاف کے سامنے سرتسلیمِ خم کر نا ہوگا۔ جمہوریت کا بنیاد ی اْصول تو آئین کی بالا دستی ہی ہے۔ وطن عزیز اپنی پون صدی پوری کرچکا ہے مگر شومئی قسمت ابھی تک اس مٹی کو ایسا راہ نما نہیں ملا جو سیاسی اور جمہوری اعتماد سے مالا مال ہو۔ آخر ہم سب کے خالی خولی نعرے اور بیانیے کب تک عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں گے؟آخرکارہمارے سیاسی اکابرین کی جواب دہی کیوں نہیں ہوسکتی؟ اگر سیاسی پارٹیوں میں اْن کے بیٹے اور بیٹیاں ہی آتی رہیں گی تو پھر تبدیلی نجانے کس چڑیا کا نام ہے؟ہمارے ہمسایہ ملک میں کبھی مارشل لا نہیں لگاکیوں کہ وہاں یونین لیول پر بھی کانگرس موجود ہے۔ کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے آرمی اور سول تعلقات کو دیکھنا پڑتا ہے آیا وہ کتنے مضبوط ہیں؟یہ ملک نظریاتی بنیادوں پر بنا تھا؟اتحاد،یقین اور اسلامی تعلیمات کا مرکز لیکن ہم اس سے محروم ہوگئے۔تقسیم کے زمانے کا ذکر کیے بغیر باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ چوں کہ تقسیم کی بنیاد مذہب تھی۔ ہرکوئی نوشۃ دیوار پڑھ سکتا تھا۔ ملک بن گیا۔ سب سمجھ رہے تھے کہ ہم اب ہنسی خوشی کی زندگی گزاریں گے۔ مگر یہ خواب ہر گزرتی حکومت اور وقت کے ساتھ ٹوٹتا ہی چلا گیا۔ شاید 70کی دہائی تک ہم خوش حال تھے۔ پھر بہت سے پھوڑے ملک کے چہرے پر نکلنے لگے۔ کہیں بدعنوانی کا پھوڑا، کہیں مذہبی منافرت کا پھوڑا، کہیں سیاسی تفرقے کا پھوڑا، کہیں سمگلنگ کا پھوڑا، یہاں تک کہ وہ پھوڑے اب ناسور بن چکے ہیں۔ بات ٹی وی ٹاک شوز اور نیوز سے شروع ہوئی تھی۔ یہ تمام ٹاک شوز ایک ہی جیسے ہوتے ہیں بالکل ویسے جیسے ٹی وی ڈرامے۔ یعنی ان کا مقصد کہیں سے بھی حالات کی درستی نہیں ہوتا بلکہ یہ ہے کہ سبھی سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ پچھلے دو دنوں سے بڑے پیمانے کی سمگلنگ کا موضوع زیرِ بحث ہے مگر مجال ہے کہ چیزیں سنور جائیں۔ معیشت کی بحالی سے لے کر سیاسی استحکام تک ہر جگہ ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ملکی سیاست اور جمہوریت تب کامیا ب ہوگی جب آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہوں گے۔ وطن عزیز کی پون صدی میں بہت سے تجربے ہوچکے اب عوام مزید تجربات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ چین جو ہمارا لوہے جیسا مضبوط دوست ہے وہ بھی ہم سے نالاں نظر آتا ہے۔ ہمارے اسلامی دوست ممالک بھی کچھ اْکھڑے اْکھڑے سے دِکھائی دیتے ہیں۔ اب ایک اور نیا شوشہ چل رہا ہے ایک نئی سیاسی جماعت کا۔ دْنیا میں کوئی بھی مہذب ملک دیکھ لیں وہاں اداروں کی مضبوطی اور مختلف شعبوں کی کامیابی ہی اْن کی ترقی کا راز ہے۔ مگر ہمارے ملک میں بے شمار سیاسی جماعتیں ہونے کے باوجود نئی سیاسی جماعت کی معجون بنائی جارہی ہے۔ نہ تو دین زیادہ جماعتوں سے پنپ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ۔ بھلا نئی سیاسی جماعت نے کون سے موتی دان کیے ہوں گے جو وہ راتوں رات ملک کی تقدیر بدل دے گے۔ اب تک کے تمام سیاست باز اپنی طاقت اپنے بچوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ٹاک شوز بھی بس اپنے ناظرین سے اطاعت شعاری کا تقاضا کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا مین سٹریم میڈیاایک خاص ایجنڈے کے تحت معاشروں کی ترویج کا کام کرتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں یہ علمی اور تخلیقی سرگرمیوں کی بجائے آپس میں جھگڑوں کو فروغ دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں پے در پے پیشگی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ پرانی سیاسی جماعتوں نے ہمیں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں کھود کر دی ہیں جو نئی اْڑان بھرنا چاہتی ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز اور نیوز کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومتی اور سیاسی شخصیات تک آپ کی کتنی رسائی ہے؟کئی بار اْنھیں یہ ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ اْن کی بڑے لوگوں تک بہت رسائی ہے جب کہ ہوتی نہیں۔ اگر آپ کی رسائی ہوجائے تو پھر آپ ڈھیروں پیسہ کما سکتے ہیں۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا آپ ٹاک اور نیوز شوز پیسہ کمانے کے لیے کرتے ہیں یا واقعی ملک سے محبت آپ کو یہ کرنے پر مجبور کرتی ہے؟